کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 436
بنا بریں عورت کو طلاق کا حق تفویض کرنا، امرِ باطل ہے، اس سے حکمِ شریعت میں تبدیلی لازم آتی ہے۔ مرد کا جو حق ہے، وہ عورت کو مل جاتا ہے اور عورت جو مرد کی محکوم ہے، وہ حاکم (قوام) بن جاتی ہے اور مرد اپنی قوامیت کو (جو اﷲ نے اسے عطا کی ہے) چھوڑ کر محکومیت کے درجے میں آجاتا ہے، یا بالفاظِ دیگر عورت طلاق کی مالک بن کر مرد بن جاتی ہے اور مرد عورت بن جاتا ہے کہ بیوی اگر اسے طلاق دے دے تو وہ سوائے اپنی بے بسی اور بے چارگی پہ رونے کے کچھ نہیں کر سکتا۔ تلک إذاً قسمۃ ضیزیٰ۔
چند شبہات و اشکالات کا ازالہ:
1۔ بعض علما آیتِ تخییر سے تفویضِ طلاق کا جواز ثابت کرتے ہیں، حالانکہ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔
آیتِ تخییر سے مراد وہ واقعہ ہے، جو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ازواجِ مطہرات کے درمیان پیش آیا کہ جب فتوحات کے نتیجے میں مالِ غنیمت کی وجہ سے مسلمانوں کی معاشی حالت قدرے بہتر ہوئی تو ازواجِ مطہرات نے بھی اپنے نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا، جو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آیا۔ اس موقعے پر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَ اُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا﴾(الاحزاب: 28)
’’اے پیغمبر! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے: اگر تم دنیا اور اس کی زینت کی طالب ہو تو آؤ میں تمھیں کچھ متعہ (فائدہ) دے کر تمھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیتا ہوں، یعنی طلاق دے دیتا ہوں۔ ‘‘
جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ سمیت تمام ازواجِ مطہرات کو اختیار دے دیا کہ تم دنیا چاہتی ہو یا آخرت؟ اگر دنیا کی آسائشیں مطلوب ہیں تو میں تمھیں طلاق اور کچھ متعۂ طلاق دے کر آزاد کر دیتا ہوں، لیکن سب نے دنیا کے مقابلے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حبالۂ عقد ہی میں رہنے کو پسند کیا۔
یہ آیتِ تخییر کہلاتی ہے۔ اس سے تفویضِ طلاق کا اِثبات نہیں ہوتا، کیوں کہ اس میں تو ان کے مطالبات کے جواب میں انھیں یہ اختیار دیا گیا کہ اگر تمھیں اپنے مطالبات پورے کرانے پر اصرار ہے تو میں زبردستی تمھیں اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور نہیں کرتا، میں تمھیں طلاق دے دیتا ہوں۔ قرآن کے الفاظ واضح ہیں: ’’آؤ میں تمھیں