کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 435
اسے آزاد کیا۔ ‘‘ اس حدیث میں آپ نے واشگاف الفاظ میں اعلان فرما دیا کہ جو شرط بھی کتاب اﷲ میں نہیں ہے، یعنی شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات کے خلاف ہے، وہ باطل ہے اور باطل کا مطلب کالعدم ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں۔ علاوہ ازیں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے احکامِ وراثت بیان فرما کر ان کی بابت کہا ہے کہ یہ اﷲ کی حدیں ہیں اور اس کے بعد فرمایا: ﴿وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ یُدْخِلْہُ نَارًا﴾ (النساء: 14) ’’جو اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے گا اور اﷲ کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو اﷲ اسے آگ میں داخل کرے گا۔ ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ کے مقررہ حصہ ہائے وراثت میں تبدیلی کرنا، اﷲ کی حدوں سے تجاوز اور اﷲ کے رسول کی نافرمانی ہے، جس کی کسی کو اجازت نہیں۔ اسی طرح اﷲ نے طلاق اور خلع کے احکام بیان کر کے فرمایا: ﴿تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ﴾(البقرۃ: 229) ’’یہ اﷲ کی حدیں ہیں، سو تم ان سے تجاوز نہ کرو اور جو اﷲ کی حدوں سے تجاوز کرے گا، وہ لوگ ظالم ہیں۔ ‘‘ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ طلاق و خلع کے احکام، حدود اﷲ کی حیثیت رکھتے ہیں، ان میں تبدیلی کرنا، یعنی عورت کو حقِ خلع کے بجائے، جو اسے اﷲ نے دیا ہے، طلاق کا حق تفویض کر دینا، حدود اﷲ میں تجاوز کرنا ہے، جس کا حق کسی کو حاصل نہیں۔ یہ سراسر ظلم ہے، جو اﷲ کو ناپسند ہے۔ چناں چہ آیتِ مذکورہ:﴿تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾ کے تحت مولانا عبدالماجد دریا آبادی مرحوم نے لکھا ہے اور کیا خوب لکھا ہے: ’’یہ تاکید ہے اس امر کی کہ احکامِ شرعی میں کسی خفیف جزئیہ کو بھی ناقابلِ التفات نہ سمجھا جائے اور شریعت جیسے بے انتہا منظم فن میں ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ مشین جتنی نازک اور اعلیٰ صَنَّاعی کا نمونہ ہوگی، اسی قدر اس کا ایک ایک تنہا پرزہ بھی اپنی جگہ پر بے بدل ہوگا۔ ‘‘[1]
[1] تفسیر ماجدی (۱/ ۹۲) طبع تاج کمپنی