کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 434
عہدِ رسالت کا ایک واقعہ اور فیصلہ کن فرمانِ رسول:
اس مسئلے میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا ایک واقعہ ہماری بڑی راہنمائی کرتا ہے۔ بریرہ ایک لونڈی تھی اور مُکاتَبہ تھی، یعنی مالکوں کے ساتھ اس کا معاہدہ ہو چکا تھا کہ اتنی رقم تو ادا کر دے گی تو ہماری طرف سے آزاد ہے۔ بریرہ رضی اللہ عنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: ام المومنین! آپ مجھے خرید کر آزاد کر دیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ بریرہ نے کہا: لیکن میرے آقا کہتے ہیں کہ حقِ ولاء ان کا ہوگا (ورثا کی عدمِ موجودگی میں وراثت وغیرہ کے حق کو ’ وَلاء ‘ کہا جاتا ہے)۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے حقِ ولاء کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ یہ بات نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لی یا آپ تک پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
’ اشتَرِیْھَا فَأَعْتِقِیْھَا وَدَعِیْھِمْ یَشْتَرِطُوْا مَا شَاؤُا ‘
’’اس کو خرید کر آزاد کر دے اور مالکوں کو چھوڑ، وہ جو چاہے شرط کر لیں۔ ‘‘
چناں چہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ بریرہ کو قیمت ادا کر کے آزاد کر دیا اور اس کے مالکوں نے ولاء کی شرط کر لی کہ وہ ہمارا حق ہوگا، لیکن نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’ اَلْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ وَإِنِ اشْتَرَطُوْا مِائَۃَ شَرْطٍ ‘[1]
’’حقِ ولاء آزاد کرنے والے کا ہے، چاہے مالک سو شرطیں لگا لیں۔ ‘‘
ایک اور مقام پر آپ کا یہ فرمان بایں الفاظ منقول ہے:
)مَا بَالُ رِجَالٍ یَّشْتَرِطُوْنَ شُرُوْطًا لَیْسَتْ فِيْ کِتَابِ اللّٰہِ؟ مَا کَانَ مِنْ شَرْطٍ لَیْسَ فِيْ کِتَابِ اللّٰہِ فَھُوَ بَاطِلٌ وَإِنْ کَانَ مِائَۃَ شَرْطٍ، قَضَائُ اللّٰہِ أَحَقُّ وَشَرْطُ اللّٰہِ أَوْثَقُ، وَإِنَّمَا الْوَلَائُ لِمَنْ أَعْتَقَ)
’’لوگوں کا کیا حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں، جو اﷲ کی کتاب میں نہیں؟ (یاد رکھو) جو شرط ایسی ہوگی، جو اﷲ کی کتاب میں نہیں ہے، وہ باطل ہے اگرچہ سو شرطیں ہوں۔ اﷲ کا فیصلہ زیادہ حق دار ہے (کہ اس کو مانا جائے) اور اﷲ کی شرط زیادہ مضبوط ہے (کہ اس کی پاسداری کی جائے) ولاء اسی کا حق ہے، جس نے
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث :۲۵۶۵