کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 433
اس کے برعکس اگر خاوند یہ شرط عائد کرے کہ وہ بیوی کے نان و نفقہ کا ذمے دار نہیں ہوگا، شادی کے بعد وہ ماں باپ یا بہن بھائیوں سے ملنے کی اجازت نہیں دے گا یا میں اس کو پردہ نہیں کرنے دوں گا، وعلیٰ ھذا القیاس، اس قسم کی ناجائز شرطیں، تو وہ کالعدم ہوں گی۔ یا عورت یہ شرط عائد کرے کہ وہ خاوند کو ہم بستری نہیں کرنے دے گی، تاکہ بچے پیدا نہ ہوں یا خاوند کو دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوگی یا مردوں کے ساتھ مخلوط ملازمت سے وہ نہیں روکے گا وغیرہ وغیرہ۔ تو ان شرطوں کا بھی اعتبار نہیں ہوگا، کیوں کہ یہ ناجائز شرطیں ہیں یا مقاصدِ نکاح کے منافی ہیں۔ اس لیے امام بخاری نے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو کہ ’’عورت اپنی سوتن کی طلاق کا مطالبہ نہ کرے، تاکہ وہ اس کا برتن الٹائے ‘‘ یعنی سہولیاتِ زندگی سے محروم کر دے، جو خاوند کے ہاں اس کو میسر ہیں، کتاب الشروط (رقم الحدیث: 2723) کے باب ’ ما لا یجوز من الشروط في النکاح ‘ یعنی ’’ان شرطوں کا بیان جو نکاح میں جائز نہیں۔ ‘‘ میں ذکر کیا ہے، اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ شریعت کے عطا کردہ کسی حق کو ختم کرنے کی شرط عائد کی جائے گی تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ اس قسم کی شرطوں کے بارے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرما دیا ہے: وَالْمُسْلِمُوْنَ عَلٰی شُرُوْطِھِمْ إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالاً أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا [1] ’’مسلمانوں کے لیے اپنی طے کردہ شرطوں کی پابندی ضروری ہے، سوائے اس شرط کے جو کسی حلال کو حرام یا کسی حرام کو حلال کر دے (یعنی ایسی شرطیں کالعدم ہوں گی)۔ ‘‘ نکاح کے موقع پر تفویضِ طلاق کی شرط بھی شرطِ باطل ہے، جس سے مرد کا وہ حق جو اﷲ نے صرف مرد کو دیا ہے، وہ اس سے ختم ہو کر عورت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ مرد کے اس حقِ شرعی کا عورت کی طرف انتقال، حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینے ہی کے مترادف ہے، جس کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ اس شرط سے عورت کو طلاق دینے کا حق قطعاً حاصل نہیں ہوسکتا، اس کو اس قسم کے حالات سے سابقہ پیش آئے تو وہ، شرط کے باوجود، طلاق دینے کی مجاز نہیں ہوگی، بلکہ طلاق لینے، یعنی خلع کرنے ہی کی پابند ہوگی۔
[1] جامع الترمذی، کتاب الأحکام، رقم الحدیث:۱۳۵۲