کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 432
ہیں، وہ مسلمہ ہیں اور انہی کے پیشِ نظر اﷲ نے یہ حق عورت کو نہیں دیا۔
قابلِ غور امر یہ ہے کہ جو حق اﷲ نے نہیں دیا، اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیا تو وہ اور کون سی اتھارٹی ہو سکتی ہے جو یہ حق عورتوں کو دے دے؟ یقیناً ایسی کوئی اتھارٹی نہ ہے اور نہ ہو سکتی ہے، اس لیے اس تفویضِ طلاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر کوئی عورت انسانوں کے اپنے تفویض کردہ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خاوند کو طلاق دے دیتی ہے تو اس طرح قطعاً طلاق واقع نہیں ہوگی۔ نکاح ایک میثاقِ غلیظ (نہایت مضبوط عہد) ہے، جو حکمِ الٰہی کے تحت طے پاتا ہے، اسے خود ساختہ طریقے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عہد اسی وقت ختم ہو گا، جب اس کے ختم کرنے کا وہ طریقہ اختیار کیا جائے گا، جو خود اﷲ نے بتلایا ہے اور وہ طریقہ صرف اور صرف مرد کا طلاق دینا یا عورت کا خلع لینا ہے۔ اس کے علاوہ رشتۂ نکاح کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
کون سی شرطیں قابلِ اعتبار یا ناقابلِ اعتبار ہیں؟
اس تفویضِ طلاق کے جواز میں دلیل دی جاتی ہے کہ نکاح کے موقعے پر جو شرطیں طے پائیں، ان کا پورا کرنا ضروری ہے۔ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
( أَحَقُّ الشُّرُوْطِ أَنْ تُوْفُوْا بِہٖ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِہِ الْفُرُوْجَ )[1]
’’جن شرطوں کا پورا کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے، وہ وہ شرطیں ہیں، جن کے ذریعے سے تم شرم گاہیں حلال کرو۔ ‘‘
یہ حدیث اپنی جگہ بالکل صحیح ہے، لیکن اس سے مراد وہ شرطیں ہیں، جن سے مقاصدِ نکاح کو مزید موکد کرنا مقصود ہو، جیسے: خود امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو مہر ادا کرنے کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح کسی مرد سے یہ اندیشہ ہو کہ وہ نان و نفقہ میں کوتاہی کرے گا یا شاید حسنِ سلوک کے تقاضے پورے نہیں کرے گا یا رشتے داروں سے میل ملاپ میں ناجائز تنگ کرے گا، تو نکاح کے موقعے پر اس قسم کی شرطیں طے کر لی جائیں تو ان کا پورا کرنا مرد کے لیے ضروری ہوگا۔
یہ حدیث اسی قسم کی شرطوں تک محدود رہے گی۔
[1] صحیح البخاري، کتاب الشروط، باب الشروط في المھر عند عقدۃ النکاح، رقم الحدیث :۲۷۲۱