کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 43
اور اس کے برعکس رویہ کہ اپنے خود ساختہ نظریات کے خلاف احادیث مردودقرار پائیں، چاہے وہ درجۂ صحت میں اعلیٰ ترین ہوں۔ اور منکروضعیف حتیٰٰ کہ موضوع روایات بھی قابلِ قبول ہوں محض اس لیے کہ ان سے ان کے باطل نظریات کوسہاراملتاہے۔ یہ رویہ ہرگز حدیث کوماننےوالانہیں ہے۔ یہ رویہ توہرباطل فرقہ کارہاہے اور اب بھی ہے، حتیٰٰ کہ غلام احمد پرویز اور ان جیسے دیگرمنکرین حدیث اور ملحدین کابھی ہے۔ اگرفکرفراہی کے بانی، شارح اور دیگرہم نواؤں کارویہ بھی یہی ہے(اور یقیناًیہی ہے) تویہ گروہ دیگر گمراہ گروہوں سے الگ کیوں کرقراردیاجاسکتاہے؟اسی طرح اسےمنکرحدیث کیوں نہیں کہاجاسکتاہے؟ بہرحال یہ ایک اصولی گفتگوتھی جواستطراداًنوک قلم پرآگئی، اسے آئندہ گفتگوکےلیےتمہیدبھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہماری گفتگوکااصل موضوع مولانافراہی کامخترعہ”نظم“ہےجوہمارےنزدیک’’شکرکوٹڈ‘‘زہر ہے، ” یعنی شکرمیں ملایاہوا زہر“بظاہرخوش نما لیکن پینےوالے کےلیےزہرہلاہل۔ جیسے اصلاحی صاحب نےاسےپیا، یعنی اپنی فکراورتفسیر میں اسے برتاتوان کےافکارمیں اس کےزہریلے اثرات کی پھنکارصاف نظرآتی اور دکھائی دیتی ہے۔ فکرفراہی کے یہ زہریلےثرات کیاہیں ؟ احادیث صحیحہ کاانکاراورمعجزات کاانکار۔ ا س کی مکمل تفصیل ہم اصلاحی صاحب کی شرح بخاری اور”تدبرقرآن“کےنقدوتبصرےمیں پیش کرچکےہیں۔ اس لیےان مہلک نتائج کوواہمہ یامفروضہ قرارنہیں دیاجاسکتا، ایک حقیقت ثابتہ ہے، کوئی شترمرغ کی طرح اپنی آنکھیں بند کرلےاور اسے دیکھنےسےعمداًگریز کرےتواس کاعلاج توکسی کے پاس نہ ہے اور نہ ہوسکتاہے۔ ورنہ بقول ایک عربی شاعرکے؎ أیّتھاالنفس أجملي جزعا أن الذي ماتحذرین قد وقعا فراہی صاحب کے عدم حجیت حدیث کےواضح دلائل لیجیے اب مولانافراہی صاحب کے وہ”ارشادات گرامی“ ملاحظہ فرمائیں جن کی بنیادپراحادیث صحیحہ کاانکار کرکے تفسیربالرائےکافلک بوس قصرتعمیرکیاگیاہے۔ تاہم فراہی صاحب کے اقتباسات پیش کرنے سےقبل ہم اس ا مرکی وضاحت کرنی مناسب سمجھتےہیں کہ جس