کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 427
دے گی۔ اس کو خلع کہتے ہیں اور خلع کا یہ حق شریعتِ اسلامیہ نے عورت کو دیا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسرے حل کی نہ ضرورت ہے اور نہ اس کی اجازت ہی ہے۔ حقِ خلع اور اس کے شرعی دلائل: لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے نکاح فارم میں بھی تفویضِ طلاق کی شق شامل ہے اور اکثر علما بھی اس کے جواز کے قائل ہیں، حتیٰ کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس کا جواز تسلیم کر لیا ہے۔ نیز عورت کے حقِ خلع کا بھی انکار کیا ہے۔ [1]جب کہ نکاح نامے میں تفویضِ طلاق کی یہ شق شریعتِ اسلامیہ کے خلاف ہے۔ اس لیے اب یہ موضوع زیرِ بحث آہی گیا ہے تو ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ قدرے تفصیل سے اس پر روشنی ڈالیں اور شرعی دلائل سے اس کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کریں۔ یہ دلائل حسبِ ذیل ہیں: اسلام میں طلاق کا حق صرف مرد کو دیا گیا ہے، عورت کو نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں زود رنج، زود مشتعل اور جلدبازی میں جلد فیصلہ کرنے والی ہے۔ نیز عقل اور دور اندیشی میں کمزور ہے۔ عورت کو بھی حقِ طلاق دیے جانے کی صورت میں یہ اہم رشتہ جو خاندان کے استحکام و بقا اور اس کی حفاظت و صیانت کے لیے بڑا ضروری ہے، تارِ عنکبوت سے زیادہ پائیدار ثابت نہ ہوتا۔ علماے نفسیات بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل راقم کی کتاب ’’خواتین کے امتیازی مسائل ‘‘ (مطبوعہ دارالسلام) میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اگر عورت کو بھی طلاق کا حق مل جاتا تو وہ اپنا یہ حق نہایت جلد بازی یا جذبات میں آکر استعمال کر لیا کرتی اور اپنے پیروں پر آپ کلہاڑی مار لیا کرتی۔ اس سے معاشرتی زندگی میں جو بگاڑ اور فساد پیدا ہوتا، اس کا تصور ہی نہایت روح فرسا ہے۔ اس کا اندازہ آپ مغرب اور یورپ کی ان معاشرتی رپورٹوں سے لگا سکتے ہیں، جو وہاں عورتوں کو حقِ طلاق مل جانے کے بعد مرتب اور شائع ہوئی ہیں۔ ان رپورٹوں کے مطالعے سے اسلامی تعلیمات کی حقانیت کا اور عورت کی اس کمزوری کا اثبات ہوتاہے، جس کی بنا پر مرد کو تو حقِ طلاق دیا گیا ہے، لیکن عورت کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ عورت کی جس زود رنجی، سریع الغضبی، ناشکرے پن اور جذباتی ہونے کا ہم ذکر کر رہے ہیں، احادیث سے بھی اس کا اثبات ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں
[1] روزنامہ ’’ایکسپریس‘‘ لاہور، روزنامہ ’’آواز‘‘ لاہور:۲۸؍ مئی ۲۰۱۵