کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 426
صاحب کو بھی تسلیم ہے۔ پھر اس مردانہ حق کو مرد سے چھین کر عورت کو کس طرح تفویض کیا جا سکتا ہے؟ اور اﷲ کی اس نہایت حکیمانہ تقسیم کو بدلنے کا حق علما و فقہا کو کس طرح دیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں مرد محکوم اور عورت حاکم بن جائے؟ پھر تو قرآن کی آیات ﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ﴾ (النساء: 34) اور ﴿وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ﴾ (البقرۃ: 228) کو کم از کم اس مسئلے میں ’النساء قوامات علی الرجال ‘ اور ’وللنساء علی الرجال درجة‘ میں تبدیل کرنا پڑے گا!!
اس کا جواب یہ دیا جا سکتا ہے کہ علما و فقہا کو اجتہاد کا حق حاصل ہے اور ان کے اجتہادی مسئلے کو شریعت سازی نہیں کہا جاتا، بلکہ وہ شرعی حکم ہی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے، لیکن اجتہاد کی اجازت یا حق منصوص مسائل میں ہرگز نہیں ہے۔ امرِ منصوص میں اجتہاد یا اس سے انحراف، سراسر گمراہی اور شریعت سازی ہی ہے، جس کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔
بہرحال ہمارا موقف یہ ہے، جو قرآن و حدیث کے واضح دلائل سے ثابت ہے کہ عورت کو طلاق کا حق تفویض نہیں کیا جا سکتا۔ نہ نکاح کے وقت اور نہ کسی اور موقعے پر۔ اگر کسی نے یہ حقِ طلاق عورت کو دے دیا اور عورت نے اسے استعمال کرتے ہوئے خاوند کو طلاق دے دی تو یہ طلاق نہیں ہوگی۔ طلاق کا حق صرف مرد کو حاصل ہے۔ یہ حق اﷲ نے صرف مرد ہی کو عطا کیا ہے، اسے پوری امت مل کر بھی عورت کی طرف منتقل کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ بنابریں عمار صاحب کا اپنے آخری پیرے میں یہ کہنا:
’’قانونی طور پر لازم کر دیا جائے یا یہ قرار دیا جائے کہ اگر عورت خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے تو ایک مخصوص مدت کے اندر شوہر بیوی کو مطمئن کرنے یا اُسے طلاق دینے کا پابند ہوگا، ورنہ طلاق از خود واقع ہوجائے گی۔ ‘‘[1]
بے بنیاد اور شریعت سازی ہے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے خود ہی اس قسم کی صورتوں میں عورت کو مرد کے حقِ طلاق کے مقابلے میں خلع کا حق عطا کیا ہے، جس کے ذریعے سے وہ خاوند سے طلاق کا مطالبہ کر کے طلاق لے سکتی ہے۔ خاوند اس کا یہ جائز مطالبہ تسلیم نہ کرے تو عدالت یا پنچایت یہ نکاح فسخ کر کے عورت کو اس سے آزاد کر
[1] الشریعہ:ص: ۱۸۶