کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 424
ہے کہ وہ بیوی کو حقِ طلاق تفویض کرتا ہے یا نہیں کرتا؟ قانون اس کو پابند نہیں کرتا۔ ‘‘ اس کے بعد وہ مزید آگے بڑھتے ہوئے ایسے قانون بنانے کی بھی حمایت کرتے ہیں کہ جس کی رُو سے ’’ہر نکاح کے موقع پر خاوند اپنا حقِ طلاق ان ان شرائط کے ساتھ بیوی کو دے دے تو میرے نزدیک فقہی طور پر اس کی گنجایش موجود ہے۔ ‘‘ مزید فرماتے ہیں: ’’مثال کے طور پر یہ شرط لگائی جا سکتی ہے کہ بیوی اگر کسی موقع پر یہ مطالبہ کرے کہ مجھے طلاق چاہیے اور بیوی کا باپ یا سرپرست یا خاندان کا کوئی دوسرا ذمے دار آدمی اس مطالبے کی توثیق کر دے کہ ہاں اس کا مطالبہ بجا ہے تو پھر خاوند پابند ہوگا۔ ‘‘[1] ہماری گزارشات: اس سلسلے میں ہماری گزارشات حسبِ ذیل ہیں: 1۔ یہ ساری دراز نفسی اس مفروضے پر قائم ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا صرف مرد کو حقِ طلاق دیتے وقت، اس کے علمِ کامل و محیط میں یہ بات نہیں آسکی کہ بعض دفعہ عورت کو ایسی ’’عملی مشکلات و مسائل ‘‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کہ عورت کے لیے طلاق لینا ناگزیر ہوجائے۔ لیکن (نعوذ باﷲ) اﷲ نے اپنی لا علمی کی وجہ سے اس کا کوئی حل اس دینِ اسلام میں، جس کی کاملیت کا اعلان بھی اس نے فرمایا ہے، نہیں بتلایا۔ اب عمار صاحب سمیت حنفی علما کو اس کا حل نکالنے کی سعی کرنی پڑ رہی ہے۔ ہم پوچھتے ہیں: کیا یہ دونوں باتیں صحیح ہیں: (1)اﷲ کو مستقبل میں عورت کو پیش آنے والی مشکلات اور مسائل کا علم نہیں تھا؟ (2)اس لیے دینِ اسلام میں اس کا کوئی حل بھی نہیں بتلایا گیا ہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ کو جس طرح ’ مَا کَانَ ‘ کا علم ہے، وہ ’ مَا یَکُوْن ‘ کا علم بھی رکھتا ہے اور اس نے دینِ اسلام کی کاملیت ﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾(المائدۃ: 3) ’’آج میں نے
[1] الشریعہ، ص: ۱۸۶