کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 423
عورت کے لیے حقِ طلاق اس عنوان کے تحت عمار صاحب نے لکھا ہے: ’’عورت کے لیے مرد کے مساوی اور مطلق حقِ طلاق کی بات میرے نزدیک شرعی ترجیحات کے منافی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے یہ حق مرد کو﴿وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ﴾ (البقرۃ: 228) کی تصریح کے ساتھ دیا ہے۔ اس تناظر میں راقم نے لکھا ہے: ’’اگر آپ مطلق طور پر عورت کو حقِ طلاق دے دیں تو جو سوئے استعمال آپ مرد کی طرف روکنا چاہتے ہیں، اس کا امکان عورت کی طرف بھی ہے۔ اگر خاتون کو آپ علی الاطلاق، بالکل (absolute Right) دے دیتے ہیں کہ وہ جب چاہے مرد سے الگ ہو جائے تو رشتۂ نکاح کی وہ اصل ہیئت بھی قائم نہیں رہے گی جو اﷲ نے قائم کی ہے اور غلط استعمال کی مثالیں بھی خواتین کی طرف سے زیادہ سامنے آئیں گی۔ ‘‘[1] مرد کے حقِ طلاق، بلکہ صرف اس کا حق ہونے کے بارے میں عزیز موصوف کی یہ وضاحت شریعتِ اسلامیہ کی بالکل صحیح توجیہ ہے۔ کاش وہ اسی توجیہ تک ہی محدود رہتے۔ لیکن یہاں بھی حسبِ سابق وہ تضاد ہی کا شکار ہیں۔ اس لیے اگلے پیرے میں وہ مرد کے اس حقِ طلاق کی نفی کر دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’البتہ عملی مشکلات و مسائل کے تناظر میں خواتین کو بعض شرائط کے ساتھ محدود دائرے میں شوہر کے ساتھ حقِ طلاق میں شریک کرنے کی گنجائش فقہا کے ہاں ہمیشہ تسلیم کی گئی ہے۔ ‘‘ اس کے بعد انھوں نے اپنا یہ موقف قدرے تفصیل سے پیش کیا ہے: ’’عورت نکاح کے وقت طلاق کا حق مانگ سکتی ہے، لیکن عام حالات میں یہ خاوند کی رضا مندی سے مشروط
[1] الشریعہ:ص: ۱۸۶