کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 422
کے متجددین کی دانشِ افرنگی ہی کو درخور اعتنا نہ سمجھا جائے تو زیادہ بہتر ہے، کیوں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ( إِنَّ اللّٰہَ لَا یَجْمَعُ أُمَّتِيْ عَلٰی ضَلَالۃٍ )[1] ’’اﷲ تعالیٰ میری امت کو کسی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔ ‘‘ 2۔ عورتوں کے حقوق و فرائض بھی آج سے چودہ سو سال پہلے متعین کر دیے گئے ہیں اور آج بھی جب تک عورتوں کو ان حقوق و فرائض کا پابند نہیں بنایا جائے گا، اصلاحِ احوال کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ اس لیے مسئلہ عورت کے حقوق و فرائض کا حل کرنا نہیں ہے، بلکہ اسے اسلام کے متعین کردہ حقوق و فرائض کا پابند بنانا اور اس کے مطابق عمل در آمد کرانا ہے۔ 3۔ ’’حرفیت پسندی ‘‘ سے الگ ہو کر سوچنے کی دعوت دینا، انتہائی گمراہی کا راستہ ہے۔ ایسے ہی لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ عورت کو نصف میراث کے بجائے مرد کے مساوی حصہ ملنا چاہیے۔ ایسے ’’اجتہاد ‘‘ کے مقابلے میں ’’حرفیت پسندی ‘‘ قابلِ تعریف ہے، جس میں نصوصِ شریعت سے انحراف نہ ہو۔ 4۔ جہاں تک اس اندیشے کا تعلق ہے کہ عورت کی نصف دیت پر اصرار کرنے کی وجہ سے عورتوں کے اندر اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پیدا ہوجائیں گے تو یہ بات بھی غلط ہے، کیوں کہ چودہ سو سال سے اسلام میں عورت کا حصۂ میراث مرد کے حصۂ میراث سے نصف چلا آرہا ہے۔ نصف دیت میں تو سرے سے عورت کی کوئی حق تلفی ہی نہیں ہے۔ عورت کے قتل کر دیے جانے کی صورت میں جو دیت جن ورثا کو ملے گی، وہ اس کے والدین، بھائی یا خاوند وغیرہ ہی ہوں گے، عورت کا اس میں کیا نقصان ہے؟ یا اس کی بے حرمتی کا اس میں کیا پہلو ہے؟ اگر عورتوں کے اندر شکوک و شبہات پیدا ہوسکتے ہیں تو مسئلۂ میراث کی وجہ سے ہو سکتے ہیں، مسئلہ دیت کی وجہ سے نہیں۔ الحمد ﷲ! مسلمان عورتوں کے اندر مسئلۂ میراث کی وجہ سے آج تک اسلام کے خلاف شکوک و شبہات پیدا نہیں ہوئے، کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس میں جو حکمت و مصلحت ہے، وہ بالکل صحیح ہے۔ اب اگر کسی ’’انگریزی خواں ‘‘ عورت کے اندر ایسے شبہات پیدا ہوتے ہیں تو جو جواب مسئلۂ میراث کے سلسلے میں دیا جائے گا، نصف دیت کے سلسلے میں پیدا ہونے والے شبہے کا جواب بھی وہی ہو گا۔
[1] سنن الترمذي، کتاب الفتن، رقم الحدیث:۲۱۶۷