کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 421
سے اس کی پوری دیت ضروری ہے، جب کہ عورت کے قتل کیے جانے کی صورت میں ایسی مالی مشکل پیش نہیں آتی، اس لیے اس کی نصف دیت قطعاً غیر معقول نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں نصف دیت کے پیچھے قطعاً یہ جذبہ کار فرما نہیں ہے کہ، نعوذ باﷲ، عورت حقیر ہے یا وہ نصف انسان ہے، اس لیے اس کی دیت بھی نصف ہے، بلکہ اس میں وہی علت یا حکمت و مصلحت مضمر ہے، جو میراث میں پائی جاتی ہے، جس میں عورت کی تحقیر کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔
بعض شکوک و شبہات کا ازالہ:
ایک بزرگ نے بہت عرصہ قبل ایک مضمون میں، عورتوں کے مسئلے میں مغربی ذہن کی حمایت کرتے ہوئے علمائے کرام سے اپیل کی تھی کہ وہ عورتوں کے بارے میں ’’حرفیت پسندی ‘‘ سے الگ ہو کر عورتوں کے حقوق و فرائض کے مسئلے کو وسیع تر انسانی بنیادوں پر حل کریں، ورنہ خطرہ ہے کہ ان کے طرزِ عمل سے عورتوں کے دلوں میں اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوجائیں گے۔ [1]
یہ مضمون عورت کی پوری دیت کی حمایت کے ضمن میں ہی لکھا گیا تھا، اور اس میں یہ اپیل کی گئی تھی۔ ہمارے خیال میں علمائے کرام سے یہ اپیل غلطی ہائے مضامین کی آئینہ دار ہے۔ اس میں:
اولاً: علمائے کرام کو علم و فہم سے عاری اور حکمت و دانش سے بے بہرہ باور کرایا گیا ہے۔
ثانیاً:عورتوں کے حقوق و فرائض کو حل طلب بتلایا گیا ہے۔
ثالثاً: ’’حرفیت پسندی ‘‘ سے الگ ہو کر سوچنے کی دعوت دے کر نصوصِ شریعت میں تبدیلی کی گنجایش نکالی گئی ہے۔
رابعاً:عورتوں کے اندر غلط جذبات کی آبیاری کی گئی ہے۔
ہمارے خیال میں بزرگ مرحوم کی یہ باتیں متجددین کی حمایت اور بے جا خوش فہمی ہے۔ کاش ایسی باتیں ان کے قلم سے نہ نکلتیں۔ چند علما کے علم و فہم کو تو متہم کیا جا سکتا ہے، انھیں حکمت و دانش سے بے بہرہ بھی ثابت کیا جا سکتا ہے، لیکن جہاں مسئلہ نصِ شرعی اور اجماعِ صحابہ کا ہو اور اقلیت و اکثریت سے قطع نظر پوری امت کے علما و فقہا کا بھی ہو، وہاں یہ بحث جچتی نہیں۔ یہاں پوری امت کے (صحابہ سمیت) فقہا کو بے دانش سمجھنے کے بجائے اگر آج کل
[1] روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور (۱۳؍ اکتوبر ۱۹۸۴ء)