کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 420
تکریمِ نسوانیت کے لیے، جو جو حدود و ضوابط تجویز کیے گئے ہیں، ہو سکتا ہے وہ مغرب کے نزدیک استخفافِ نسوانیت کا باعث ہوں۔ مثلاً: اسلام میں عورت کے لیے پردہ انتہائی ضروری ہے، مرد و زن کے بے محابا اختلاط کی اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ مغربی ذہن اسلام کی اس ہدایت پر ناک بھوں چڑھاتا ہے اور اسے (نعوذ باللّٰہ) عورت کی تذلیل قرار دیتا ہے، لیکن اسلام کی نظر میں یہ عورت کی تذلیل نہیں، اس کی یہ عین عزت ہے اور بے پردگی میں، جسے مغربی ذہن عورت کی عزت قرار دیتا ہے، عورت کی تذلیل و تحقیر ہے۔ اسی طرح اسلام نے مرد و عورت کی، ایک دوسرے سے مختلف، فطری صلاحیتوں کی بنا پر دونوں کا دائرہ کار بھی ایک دوسرے سے مختلف رکھا ہے۔ مرد کو معاشی ذمے داریوں کا کفیل بنایا ہے اور عورت کو اس معاشی کفالت سے آزاد رکھا ہے۔ یہ صرف مرد کی ذمے داری ہے کہ وہ گھر سے باہر محنت مزدوری کرے، کارخانوں اور دفتروں میں ملازمت کرے اور معاشی تگ و دَو میں حصہ لے اور عورت گھر کی چار دیواری کے اندر امورِ خانہ داری کے فرائض انجام دے۔ یہ الگ الگ دائرۂ کار ان فطری صلاحیتوں کے مطابق ہے، جن کی وجہ سے مرد و عورت کی تخلیق ہوئی ہے اور اسی میں ان کی عزت و تکریم ہے۔ اسی بنیاد پر میراث میں عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں نصف ہے، کیوں کہ معاشی کفالت کے لیے مرد کو مال و دولت کی جتنی ضرورت ہے، عورت کو نہیں۔ اسلام کا یہ اصول قیامت تک کے لیے ہے، اس میں تبدیلی کی کوئی گنجایش نہیں۔ اب چاہے معاملہ کتنا ہی برعکس ہوجائے اور عورتیں مردوں کے دوش بدوش معاشی دوڑ میں خواہ کتنی ہی سرگرمی سے حصہ لیں اور کارخانے اور دفاتر چاہے عورتوں کے دم قدم سے کتنے ہی پر رونق ہوجائیں، لیکن میراث میں عورت کا حصہ پھر بھی مرد کے حصے سے نصف ہی رہے گا، کیوں کہ معاشی سرگرمیوں میں عورتوں کی شرکت ہی اصولی طور پر سرے سے غلط ہے اور اسلام کے خلاف ہے۔ (بعض انفرادی صورتوں میں بطورِ مجبوری عورتوں کی ملازمت الگ بات ہے، جس کی گنجایش محدود دائرے میں موجود ہے) عورت کی نصف دیت میں وہی علت ہے، جو میراث کے نصف حصے میں ہے، یعنی چوں کہ مرد کے قتل کیے جانے کی صورت میں ایک پورا خاندان اپنے کفیل سے محروم ہوجاتا ہے، اس لیے خاندان کی کفالت کے نقطۂ نظر