کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 42
نہایت دلچسپ بات یہ ہے کہ اس متفقہ فتوائے کفر پر اصلاحی صاحب کی مہرتصدیق بھی ثبت ہے۔ [1]
اس کے برعکس فراہی گروہ کی حیثیت مارِآستین کی ہے، یہ بظاہر حدیث کی حجیت کاقائل ہے لیکن اس کی فکر میں یہ کجی ہے کہ وہ حدیث کے ساتھ ایک قدم بھی نہیں چل سکتی، وہ حدیث کے خلاف ایک متوازی رویہ اور فکر ہے۔ اسی لیے یہ گروہ مختلف انداز سے حدیث پرشب خون ماررہاہے، کبھی اخبار آحاد کے نام پر، کبھی راویان حدیث کی ثقاہت کوبلادلیل مجروح ٹھہراکر، کبھی حدیث کو قرآن کےخلاف باور کراکر، کبھی انسانی کاوشوں کےامکانی خطا کےنام پر، کبھی روایت بالمعنی کی غیرمعقول روش اپناکر اورکبھی ”نظم قرآن“ کی دُھائی دے کراور کبھی ”کلام عرب “ (شعرائےجاہلیت) کےمنحول (غیرمستند)اقوال کی بنیادپر۔ (یہ مفروضات نہیں ہیں بلکہ ہم ان کے انکار حدیث کی ان تمام صورتوں کوناقابل تردیددلائل سے گزشتہ مباحث میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے واضح کرآئےہیں)
ہاں یہ ضرورہے کہ جہاں ان کو ضرورت لاحق ہوتی ہے، حدیث سے بھی استدلال کرلیتےہیں۔ لیکن وہاں بھی مقصد، حدیث کی اہمیت نہیں ہوتا، اپنی مطلب برآری اور اپنے خودساختہ نظریات کے لیےسہارے کی فراہمی ہی ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف متفق علیہ احادیث کاانکاران کاوتیرہ اور شیوہ ہے اور دوسری طرف وہ منکر وموضوع روایات سے حجت پکڑتےہیں۔ (اس کے بھی دلائل ہمارےگزشتہ مباحث میں ملاحظہ کیے جاسکتےہیں)
کیااس کوحدیث کامانناقرادیاجاسکتاہے؟ اس طرح توحدیث غلام احمدپرویزوغیرہ بھی مانتے ہیں، پھرعلماء نے کیوں اس گروہ کومتفقہ طور پرکافرقرادیاہے جس کی تائید وتصدیق اصلاحی صاحب نے بھی فرمائی ہے؟
حدیث کوماننےکامطلب کیاہے؟
بنابریں حدیث کے ماننےکامطلب، جیساکہ ایک مضمون میں ہم وضاحت کرآئے ہیں یہ ہے کہ تحقیق وتنقید حدیث کےجومسلّمہ اصول وضوابط ہیں، ان کی روشنی میں جوحدیث صحیح قرارپائے، وہ صحیح اور قابل حجت ہے اورجوضعیف، منکر، موضوع قرارپائے، وہ ناقابل حجت ہے۔
اور جواحادیث کےمجموعے ان مسلّمہ اصولوں کے مطابق مرتب ہوئےہیں اور ان کی صحت پر اتفاق ہے، جیسے صحیح بخاری وصحیح مسلم کی متفق علیہ احادیث یادیگرمجموعہ ہائے حدیث کی صحیح احادیث ہیں۔ وہ سب قابل حجت ہیں۔
[1] ملاحظہ ہو ان کی کتاب ”تفہیم دین“فاران فاؤنڈیشن لاہور۔