کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 419
دیت (قتلِ خطا میں) نصف قرار نہ دینے کو ہدفِ تنقید بنایا تھا۔ راقم نے بھی اس دَور میں قصاص و دیت کے قانون کی زیرِ بحث دفعہ کے خلاف ’’الاعتصام ‘‘ لاہور میں ایک مضمون لکھا تھا، اور بھی بعض علما نے لکھا تھا۔ یوں یہ قانونِ قصاص و دیت اس وقت زیرِ بحث و تنقید رہا۔
عورت کی نصف دیت کے بارے میں چند ضروری وضاحتیں:
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب جب یہ مسئلہ پھر ’’الشریعہ ‘‘ کے صفحات پر آگیا ہے تو مسئلے کی اصل نوعیت، اس کی حکمت اور اس کے بارے میں پیدا کردہ شکوک و شبہات کی وضاحت کر دی جائے، تاکہ علمائے اسلام کے اجماعی موقف کی حقانیت و صداقت مزید واضح ہوجائے۔
مسئلے کی نوعیت:
مختصراً مسئلے کی نوعیت یہ ہے کہ بطورِ غلطی اگر کوئی مسلمان عورت قتل ہوجائے تو اس کی دیت مرد سے نصف ہوگی۔ قتلِ عمد کا حکم اس سے مختلف ہے اور اس میں مرد و عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اس میں اولاً قصاص ہے، اگر قصاص کے بجائے دیت پر مصالحت ہوجائے تو پوری دیت ادا کرنا ضروری ہو گا۔
شرعی دلائل:
یہ فرق کیوں ہے؟ اس کے شرعی دلائل گزر چکے ہیں۔ اس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے، آثارِ صحابہ اور خلفائے راشدین کے فیصلے اور صحابہ کا اجماع ہے۔ پھر اُمتِ مسلمہ کے علما و فقہا کا بھی اتفاق ہے۔
نصف دیت کی حکمت و مصلحت:
جہاں تک انسانی شرف و تکریم کا معاملہ ہے، اسلام میں مرد و عورت کے درمیان کو ئی تفریق نہیں ہے۔ اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے، جس نے انسانی معاشرے میں عورت کی عزت اور اس کے مقام و منصب کا تحفظ اور اس کی قدر و منزلت کا اعتراف کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ واقعہ بھی ہے کہ اسلام اس مساواتِ مرد و زن کا قائل نہیں ہے، جو اس وقت مغرب میں عام ہے۔ اسی لیے تکریمِ انسانیت کا مفہوم دونوں جگہ یکساں نہیں ہے۔ مغرب کے نزدیک جو چیز بھی عین تکریمِ نسوانیت ہے، اسلام کے نزدیک وہ عین تذلیل ِنسوانیت ہے۔ اسی طرح اسلام میں