کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 418
بہر حال اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ مذکورہ دو منحرفین کی بے بنیاد انحرافی رائے سے امت کے اجماعی موقف پر قطعاً کوئی اثر نہیں پڑتا۔ نظریاتی کونسل کی رائے کا حوالہ؟ ’’میٹھا میٹھا ہپ، کڑوا کڑوا تھو ‘‘: عمار صاحب کا اس سلسلے کا پانچواں اور آخری پیرا ملاحظہ ہو، ان کے ترکش کا یہ تیر بھی رائیگاں ہی گیا ہے۔ فرماتے ہیں: ’’5۔ پاکستان میں بھی قصاص و دیت کا جو قانون نافذ کیا گیا ہے، اس میں مرد و عورت کی دیت میں فرق نہیں کیا گیا، جب کہ یہ قانون تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے کرام کی مشاورت کے بعد نافذ کیا گیا ہے اور اسے مذہبی جماعتوں کی عمومی تائید حاصل ہے۔ ‘‘[1] عمار صاحب سے ہمارا سوال ہے کہ کیا وہ اسلامی نظریاتی کونسل کی ’’استنادی حیثیت ‘‘ کے قائل ہیں؟ یعنی اس کی رائے ان کے نزدیک حتمی اور قطعی ہے، جس سے اختلاف کی گنجائش نہیں؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے، یعنی ان کے نزدیک کونسل کی رائے تنقید سے بالا ہے تو پھر انھوں نے کونسل کی اس رائے کو اپنے نقد و نظر کا موضوع کیوں بنایا ہے جس میں اس نے ڈی، این، اے کی رپورٹ کو زنا کے چار عینی گواہوں کے متبادل ماننے سے انکار کیا ہے؟ اگر ان کے نزدیک کونسل کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے تو پھر نصف دیت والی رائے میں ان کے موقف کا حوالہ کیوں کر معتبر مانا جا سکتا ہے؟ یا عمار صاحب کے لیے اس کے حوالے کا کیا جواز ہے؟ کیا یہ ’’میٹھا میٹھا ہَپ اور کڑوا کڑوا تُھو ‘‘ کا مصداق نہیں؟ کیسی عجیب بات ہے کہ کونسل کی وہ رائے جو ڈی، این، اے ٹیسٹ کی رپورٹ کے بارے میں اس نے دی ہے، جو عصرِ حاضر کے تمام علمائے اسلام کی رائے کے مطابق اور اس اعتبار سے اجماعِ امت کی مظہر ہے، وہ تو غلط اور ناقابلِ تسلیم ہے، لیکن قصاص و دیت کے بارے میں اس کا فیصلہ ان کے لیے قابلِ قبول اور معتبر ہے، جس پر علمائے اسلام کا اتفاق ہی نہیں ہے اور جس وقت اس کو نافذ کیا گیا تھا، متعدد علما نے اس وقت مرد و عورت کی
[1] الشریعہ، ص: ۱۸۰