کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 417
’’خوارج کا یہ کہنا کہ خبرِ واحد سے قرآن کی تخصیص لازم آتی ہے (جو ناجائز ہے)۔ ‘‘ ہم کہتے ہیں کہ خبرِ واحد کی رَٹ ہی غلط ہے، بلکہ یہ تخصیص خبرِ متواتر سے کی گئی ہے۔ نیز ہم نے اصولِ فقہ میں بیان کیا ہے کہ قرآن کی تخصیص خبرِ واحد سے بھی جائز ہے۔ ‘‘
آگے ان کے دیگر مزعومات کا بھی ردّ کیا ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
’’اس آیت کا عموم کوڑوں کی سزا کے وجوب کا متقاضی اور خبرِ متواتر حدِ رجم کے وجوب کی متقاضی ہے اور ان دونوں میں کوئی منافات نہیں، اس لیے جمع و تطبیق ضروری ہے۔ ‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’اکثر مجتہدین اس بات پر متفق ہیں کہ شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا اور اسے کوڑوں کی سزا نہیں دی جائے گی اور انھوں نے کئی احادیث سے استدلال کیا ہے۔ ‘‘
اس کے بعد عہدِ رسالت کے رجم کے واقعات اور احادیث و آثار اس امر کے اثبات میں پیش کیے ہیں کہ زانی محصن کو صرف سنگسار کیا گیا ہے، ان کو کوڑے نہیں مارے گئے۔ [1]
اس تفصیل سے تین باتیں واضح ہیں:
1۔ امام رازی عمومِ قرآن کی حدیث کے ذریعے سے تخصیص کے قائل ہیں، چاہے وہ متواتر ہو یا آحاد۔ اس لیے ان کے اصم کی نصف دیت کے انکار میں ان کے عموم کی دلیل بیان کرنے سے قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ امام رازی کے نزدیک اس کی اس ’’دلیل ‘‘ میں کوئی وزن ہے یا ان کا رجحان اس بوگس دلیل کی وجہ سے اس کی طرف ہوگیا ہے یا وہ اس کے موقف کو غور و فکر کے قابل سمجھتے ہیں۔
2۔ قرآن کی ’’عظمت ‘‘ کے نام پر احادیث کا انکار، خوارج کا شیوہ رہا ہے، علمائے اسلام اس کے کبھی قائل نہیں رہے۔
3۔ حدِ رجم کا انکار بھی صرف خوارج نے کیا ہے اور ان کے ’’دلائل ‘‘ بھی بعینہٖ وہی ہیں، جس کی جگالی آج کل غامدی، اصلاحی، فراہی اور ان کے ریزہ چین کر رہے ہیں۔ فتشابھت قلوبھم۔
[1] التفسیر الکبیر :۸/ ۳۰۵۔ ۳۰۶