کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 416
’’دلیل ‘‘ سے اتفاق ہو سکتا ہے؟ اس ’’دلیل ‘‘ کی رو سے تو حدِ رجم کا انکار بھی صحیح ہے، جیسا کہ غامدی و فراہی گروہ کر رہا ہے، لیکن کیا امام رازی نے بھی ’’عمومِ قرآن ‘‘ والی ’’دلیل ‘‘ سے حدِ رجم کا انکار کیا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ وہ ﴿اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ﴾کا حکم عام ہونے کے باوجود، حدیثِ رسول کی وجہ سے اس حکم کو صرف کنوارے زانی کے لیے خاص مانتے ہیں اور اس میں شادی شدہ زانی کو شامل نہیں سمجھتے، بلکہ اس کے لیے رجم کا اثبات کرتے ہیں، جیسا کہ علمائے اسلام کا موقف ہے۔
علاوہ ازیں حدِ رجم کا انکار کرنے والوں میں صرف خوارج کا ذکر کیا ہے۔ نیز ان کے دلائل ذکر کر کے ان کے نہایت معقول جواب دیے ہیں۔ خارجیوں کے یہ دلائل وہی ہیں، جو آج کل سارے منکرینِ حدیث اور فراہی گروہ پیش کر رہا ہے۔ ذرا امام رازی کے بیان کردہ چند خارجی دلائل اور امام رازی کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔
حدِ رجم کے انکار کے لیے خوارج کی دلیل:
’’﴿ اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا﴾ (النور) کا اقتضا یہ ہے کہ ہر قسم کے زانیوں کے لیے کوڑوں کی سزا واجب ہو اور خبرِ واحد سے بعض کے لیے حدِ رجم کو واجب ٹھہرانا، اس سے کتاب اﷲ کے عموم کی تخصیص لازم آتی ہے اور خبرِ واحد سے کتاب اﷲ کی تخصیص جائز نہیں ہے، اس لیے کہ کتاب اﷲ اپنے متن میں قاطع ہے، جب کہ خبرِ واحد اپنے متن میں غیر قاطع ہے اور مقطوع (قطعی چیز) مظنون (ظنی چیز) پر راجح ہے۔ ‘‘
علمائے اسلام کا جواب:
امام رازی رحمہ اللہ اس کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’جمہور مجتہدین نے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کے وجوب پر اس بات سے دلیل پکڑی ہے کہ تواتر سے یہ ثابت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔ علاوہ ازیں ابوبکر، عمر، علی، جابر بن عبداﷲ، ابو سعید خدری، ابوہریرہ، بریدہ اسلمی اور زید بن خالد اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے رجم کی روایات بیان کی ہیں اور انہی میں سے بعض راویوں نے سیدنا ماعز اور لخمیہ و غامدیہ عورت کے رجم کے واقعات بھی بیان کیے ہیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ‘‘اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ کہیں گے کہ عمر نے کتاب اﷲ میں اضافہ کر دیا تو میں اس حکمِ رجم کو قرآن میں درج کر دیتا۔ ‘‘