کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 414
(ودیۃ المرأۃ) مسلمۃ کانت أو کافرۃ (نصف دیۃ رجل من أھل دیتھا) حکاہ ابن المنذر، رواہ ابن عبد البر إجماعاً لما رویٰ عمرو بن حزم (أن النبي صلیاللّٰه علیہ وسلم۔ قال في کتابہ: دیۃ المرأۃ نصف دیۃ الرجل) لکن حُکي عن ابن علیۃ والأصم: إن دیتھا کدیۃ الرجل۔ ۔ ۔ [1] یہ دو شخص جیسے کچھ ہیں، ان کی وضاحت کی جا چکی ہے، ان کی شاذ رائے کے ذکر سے اجماع کی تردید نہیں ہوتی، نہ اس قسم کے لوگوں کے اختلاف سے اجماع کی حیثیت ہی متأثر ہوتی ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے، جیسے عصرِ حاضر کا ڈی، این، اے ٹیسٹ کی رپورٹ کی شہادت یا عدمِ شہادت کا مسئلہ ہے۔ یہ بالکل ایک جدید مسئلہ ہے۔ عرب و عجم کے تمام علما نے اس کو ایک قرینے اور ضمنی شہادت کے طور پر ماننے کا فتویٰ تو دیا ہے، لیکن اسے زنا کے چار عینی گواہ کا متبادل ماننے سے انکار کیا ہے، کیوں کہ اس سے نصوصِ قرآنی کا، جن میں چار گواہوں کی گواہی کو ضروری قرار دیا گیا ہے، انکار لازم آتا ہے۔ یہ عصرِ حاضر کا ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور علمائے اسلام نے نصوصِ شریعت کی روشنی میں اس کا متفقہ فیصلہ کر دیا ہے۔ اس فیصلے یا فتوے کو یقیناً اجماع قرار دیا جا سکتا ہے۔ لیکن عمار صاحب سمیت یہ فراہی یا غامدی گروہ اس اجماع کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے، بلکہ اس سے برملا اختلاف کا اظہار کر رہا ہے۔ ظاہر بات ہے اس منحرف گروہ کے اختلاف سے علمائے اسلام کے ایک اجماعی موقف پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا، کیوں کہ علمائے اسلام کا فیصلہ قرآن و حدیث کی نصوصِ صریحہ پر مبنی ہے اور دوسرا موقف نصوصِ شریعت کے انکار یا ان سے انحراف پر مبنی ہے۔ اس لیے اول تو وہ سرے سے قابلِ ذکر ہی نہیں ہے اور اگر اس کا کوئی ذکر بھی کر دے گا تو اس سے اجماعی موقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تفسیر کبیر (امام رازی) کے حوالے کی بھی یہی صورتِ حال ہے۔ اس میں البتہ یہ اضافہ ہے کہ اس میں جہاں فقہا کے موقف کی دلیل پیش کی گئی ہے، وہاں دوسرے موقف کی بھی ’’دلیل ‘‘ امام رازی نے نقل کر دی ہے۔ اس عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
[1] کشاف القناع :۶/ ۲۰، دار الکتب العلمیۃ