کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 413
’’4۔ عورت کی دیت کے نصف ہونے کا موقف بھی فقہا کا اجماعی موقف نہیں، کیوں کہ صدرِ اول کے دو معروف اصحابِ علم ابوبکر الاصم اور ابن علیہ اس کے قائل نہیں اور فقہ حنبلی کی کشاف القناع میں اسی بنیاد پر اس مسئلے پر اجماع کے دعوے کی تردید کی گئی ہے۔ اسی طرح امام رازی نے اپنی تفسیر میں مذکورہ نقطۂ نظر کو جس اسلوب میں بیان کیا ہے، اس سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ بھی اس کے حق میں رجحان رکھتے یا کم از کم اسے قابلِ غور ضرور سمجھتے ہیں۔ ‘‘[1] عزیز موصوف کی اس گوہر افشانی سے اجماع کی حیثیت متأثر نہیں ہوتی، اس لیے کہ یہ دونوں شخصیتیں جیسی کچھ ہیں، ان کی وضاحت ہم کر آئے ہیں۔ اسی لیے علما نے ان کی رائے کو قطعاً کوئی اہمیت نہیں دی، بلکہ اس کو ’’ شاذ ‘‘ قرار دیا ہے، یعنی امت کے اجماعی موقف سے بالکل ہٹی ہوئی منفرد رائے، جو اس راہ کے راہرَوْ کو جہنم میں لے جانے والی بات ہے۔ حدیث میں ہے: مَنْ شَذَّ شُذَّ فِيْ النَّارِ جیسے آج کل یا ماضی قریب و بعید میں جن لوگوں نے حدِ رجم کا یا اور بعض دینی مُسلّمات کا انکار کیا ہے، ایسے منحرفین اور ضالّین و مضلین کے اختلاف یا انکار سے نہ اجماع کی حیثیت متاثر ہو سکتی ہے اور نہ مسلّماتِ اسلامیہ سے انحراف کا جواز ثابت ہو سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس پر صرف فقہا و اہلِ علم ہی کا اتفاق نہیں ہے کہ جن سے اختلاف کی کوئی گنجایش ہو، بلکہ مرد و عورت کی دیت میں فرق پر اجماعِ صحابہ ہے، جس سے انکار یا انحراف کی قطعاً گنجایش نہیں ہے۔ اجماعِ صحابہ سے انکار کفر کے مترادف ہے۔ کشاف القناع اور تفسیر کبیر کے حوالوں کی حقیقت: عزیز موصوف نے مذکورہ اقتباس میں فقہ حنبلی کی کتاب کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس میں دعوائے اجماع کی تردید کی گئی ہے۔ قارئین مذکورہ کتاب کی اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ فرمائیں کہ اس میں صرف اختلاف کا ذکر ہے یا اجماع کی تردید؟
[1] الشریعہ، ص: ۱۸۰