کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 412
ہیں، شلوار و قمیص یا ازار اور ردا (دو چادریں)۔ ) اور اہلِ ذمہ کی دیت میں کچھ اضافہ نہیں کیا۔ ‘‘[1] اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اونٹوں کی کمیابی اور گرانی کے پیشِ نظر اس کی قیمت کے مساوی دوسری متبادل چیزوں کی سہولت عطا کی ہے۔ اسی عملِ رسول کی بنیاد پر سیدنا عمر نے آٹھ سو دینار کے بجائے ایک ہزار دینار اور آٹھ ہزار درہم کے بجائے بارہ ہزار دہم کر دیے اور مزید معاشرے کے دوسرے افراد کو بھی متبادل چیزوں کی اجازت دے دی۔ سیدنا عمر نے یہ اضافہ بھی صحابۂ کرام کے سامنے کیا، جس سے کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ یوں اس پر صحابہ کا اجماع بھی ہو گیا۔ اور یہ عقل کے بھی عین مطابق ہے کہ جب اصل کے ملنے یا دینے میں دِقت ہو تو اس کا متبادل اختیار کر لیا جائے، بالخصوص دیت کے معاملے میں توسو اونٹ کے متبادل قیمت کا جواز خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے بتا دیا اور سیدنا عمر کے اِقدام اور صحابہ کی موافقت سے یہ اصول مزید مستحکم ہوگیا، جس سے یہ امر واضح ہوگیا کہ سو اونٹ کا ملنا یا دینا متعذر (مشکل) ہو تو ہر دور کے مطابق اس کی قیمت ادا کرنا بالکل جائز اور صحیح ہے۔ اس کا عرف سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ تو نصِ صریح سے اور صحابہ کے اجماع سے ثابت ہے۔ علاوہ ازیں دیت سو اونٹ سے ادا کی جائے یا اس کی قیمت سے؟ اس بحث کا کوئی تعلق مرد اور عورت کی دیت میں فرق سے قطعاً نہیں ہے۔ پھر عمار صاحب اس کو اس ’’فرق ‘‘ سے جوڑ کر ایک تو خلطِ مبحث کر رہے ہیں۔ دوسری ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کو ’’عرف ‘‘ باور کرا رہے ہیں، جب کہ عرف سے اس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اسی طرح اسے اجتہادی معاملہ قرار دینا بھی یکسر غلط ہے۔ عمار صاحب کے مذکورہ اقتباس یا پیرے میں تین مغالطے یا مغالطہ انگیزیاں ہیں۔ ہماری اس وضاحت سے۔ إن شاء اﷲ۔ اس طُرۂ پُر پیچ و خم کے سارے پیچ و خم نکل گئے ہیں۔ فللّٰہ الحمد۔ اجماعی موقف میں دراڑ ڈالنے کی ناکام سعی: عمار صاحب کا چوتھا پیرا ملاحظہ فرمائیں، جس میں انھوں نے امت کے اس اجماعی مسئلے کو بھی مشکوک ٹھہرانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ لکھتے ہیں:
[1] سنن أبي داود، رقم الحدیث:۴۵۴۲:الإرواء:۷/ ۳۰۵، علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔