کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 411
یہ عرف یا اجتہادی مسئلہ ہے۔ جب کہ اس کا عرف یا اجتہاد سے کوئی تعلق نہیں ہے یا مغالطہ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے اس مغالطہ انگیزی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کی نوعیت کو واضح کیا جائے۔ بات یہ ہے کہ دیت ادا کرنے میں ایک بحث یہ بھی ہے کہ دیت کس طرح، یا کس چیز سے ادا کی جائے؟ اس کو فقہا نے ’’اصولِ دیت ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی وہ چیزیں جن سے دیت ادا کرنا جائز ہے۔ وہ بعض ائمہ کے نزدیک پانچ، بعض کے نزدیک چھے اور مالکیہ اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک تین ہیں اور وہ ہیں اونٹ، سونا اور چاندی۔ صاحبین کے نزدیک پانچ، یعنی گائے اور بکریاں بھی ہیں۔ اس کی دلیل خود نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور فرمان ہے۔ ’ الموسوعۃ الفقھیۃ ’ میں ہے: ’’سونے کا کاروبار کرنے والوں کے لیے (سو اونٹ کی جگہ) ایک ہزار دینار اور چاندی والوں کے لیے بارہ ہزار درہم ہیں۔ ‘‘ (حدیث) (یاد رہے دینار سونے کا اور درہم چاندی کا سکّہ ہوتا تھا) اس اعتبار سے اونٹ پالنے والوں کے لیے دیت سو اونٹ، سونے والوں کے لیے ایک ہزار دینار اور چاندی والوں کے بارہ ہزار درہم تھے۔ [1] لیکن موسوعہ میں جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں سونے والوں کے لیے ایک ہزار دینار اور چاندی والوں کے لیے بارہ ہزار درہم بتلائے گئے ہیں، یہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ ایک روایت سنن ابوداود میں ہے، جو حسن ہے۔ اس میں ہے: ’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیت کی قیمت آٹھ سو دینار یا آٹھ ہزار درہم تھے، اور اہلِ کتاب کی دیت ان دنوں مسلمانوں کی دیت سے نصف تھی، پس یہ معاملہ اس طرح ہی تھا کہ سیدنا عمر کا دورِ خلافت آگیا، آپ نے خطبہ دیا، جس میں فرمایا: سنو! اونٹ مہنگے ہوگئے ہیں۔ اس لیے سیدنا عمر نے سونے کا کاروبار کرنے والوں کے لیے ایک ہزار دینار اور چاندی والوں کے لیے بارہ ہزار (درہم) اور گائے والوں کے لیے دو سو گائیں اور بکری والوں کے لیے دو ہزار بکریاں اور سوٹ (جوڑے) والوں کے لیے دو سو سوٹ (ایک سوٹ یا جوڑے سے مراد، دو کپڑے
[1] الموسوعۃ الفقھیۃ :۲۱/ ۵۷