کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 410
3۔ صحابۂ کرام نے اپنے دور کے عرف کے مطابق مرد و عورت کی دیت میں فرق کیا، جو قرآن کی ہدایت کے مطابق درست تھا۔ تاہم اس عرف کی پیروی ہر دور اور ہر معاشرے میں ازروئے شریعت لازم نہیں۔ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے، جس میں مختلف معاشرے مختلف قانون سازی کر سکتے ہیں۔ ‘‘[1] یہ دونوں پیرے، ہمارے نزدیک، ہلکے سے ہلکے الفاظ میں جسارتِ غیر مومنانہ کے مظہر ہیں۔ قرآن مجید میں دیت کے معاملے میں معروف کی پیروی کا حکم کہاں ہے؟ قرآن کی کس سورت یا کس آیت میں ہے؟ اس کی نشاندہی کی جائے۔ ہمارے ذہن اور حافظے کی رسائی وہاں تک نہیں ہوسکی۔ اگر موصوف ہمارا یہ ذہول اور نسیان دور کر سکیں تو ہم اس پر ضرور غور کریں گے۔ إن شاء اﷲ، بلکہ اپنی کوتاہ بینی پر معذرت بھی۔ 2۔ صحابۂ کرام کا بھی مرد و عورت کی دیت میں فرق کرنے کو اس قرآنی ہدایت کے مطابق بتلایا گیا ہے۔ ہم یہاں پھر یہ عرض کریں گے کہ اب ایک کی جگہ ہمارے دو سوال ہوگئے ہیں۔ ایک تو قرآن کے اس حکم کی وضاحت کہ وہ کہاں ہے؟ اور دوسرا یہ کہ صحابہ نے جو فرق کیا، اس کی بنیاد قرآن کا یہی حکم تھا؟ صحابہ کی یا کسی ایک صحابی کی وضاحت دکھلا دیں کہ انھوں نے یا اس صحابی نے کہا ہو کہ ہم مرد و عورت کی دیت میں یہ فرق اپنے عرف کے مطابق اس لیے کر رہے ہیں کہ قرآن میں اس مسئلے میں ہمیں معروف کے مطابق کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟ جب تک ان دونوں سوالوں کی وضاحت ہمارے سامنے نہیں آجاتی، ہمارے نزدیک یہ قرآن پر بھی اتہام ہے اور صحابۂ کرام پر بھی، اور یہ جراَت رندانہ اس گروہ میں کیوں پیدا ہوئی؟ محض مسلّمات اسلامیہ کے انکار کے ’’شوقِ فضول ‘‘ کی ’’برکت ‘‘ سے، قرآن کو بازیچۂ اطفال بنانے کی فن کارانہ مہارت کے نتیجے میں اور شاطرانہ استدلال کی بازی گری میں طاق ہونے کی وجہ سے۔ أعاذنا اللّٰہ منھا۔ عمار صاحب کا اپنا مغالطہ یا مغالطہ دینے کی کوشش: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید عمار صاحب کو دیت ادا کرنے میں معاشرے کے مختلف طبقات کو ان کے پیشوں کے اعتبار سے شریعت میں سو اونٹ کے متبادل چیزوں کی رخصت یا سہولت دی گئی ہے، اس سے مغالطہ لگا ہے کہ
[1] الشریعہ، ص: ۱۸۰