کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 408
حدیث کے عموم سے استدلال کیا ہے، علما نے نصف دیت والی روایات کو اس کا مخصص اور مفسر قرار دے کر اس استدلال کو رد کر دیا ہے، چناں چہ فقہ حنبلی کی مشہور کتاب ’’ المغني لابن قدامۃ ‘‘ میں ہے: قال ابن المنذر وابن عبد البر: أجمع أھل العلم أن دیۃ المرأۃ نصف دیۃ الرجل، وحکی غیرھما عن ابن علیّۃ والأصم أنھما قالا: دیتھا کدیۃ الرجل، لقولہ علیہ السلام: ( في النفس المؤمنۃ مائۃ من الإبل ) وھذا قول شاذٌّ یخالف إجماع الصحابۃ وسنۃ النبي صلیاللّٰه علیہ وسلم فإن في کتاب عمرو بن حزم دیۃ المرأۃ علی النصف من دیۃ الرجل، وھي أخص مما ذکروہ، وھما في کتاب واحد، فیکون ما ذکرنا مفسراً لما ذکروہ مخصصا لہ، ودیۃ نساء کل أھل دین علی النصف من دیۃ رجالھم [1] الموسوعۃ الفقھیۃ ‘ (کویتی) میں ہے: وذھب الفقھاء إلی أن دیۃ الأنثیٰ الحرۃ المسلمۃ ھي نصف دیۃ الذکر الحر المسلم، ھٰکذا روي عن النبي صلیاللّٰه علیہ وسلم وعن عمر و علي وابن مسعود وزید بن ثابت رضی اللّٰہ عنھما۔ قال ابن المنذر وابن عبد البر: أجمع أھل العلم علیٰ أن دیۃ المرأۃ نصف دیۃ الرجل، مما روی معاذ عن النبي صلیاللّٰه علیہ وسلم قال: ’دیۃ المرأۃ علی النصف من دیۃ الرجل ’ ولأنھا في الشھادۃ والمیراث علی النصف من الرجل فکذلک في الدیۃ[2] اہلِ علم کا اجماع یا فقہا کا یہ اتفاق قدیم و جدید مفسرین نے ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: تفسیر القرطبی، التفسیر المنیر وغیرہ۔ اجماعِ صحابہ: عورت کی نصف دیت کی بابت فقہا کے اتفاق کا ذکر کیا گیا ہے، ممکن ہے عمار صاحب، جن کی اڑان بہت اونچی ہے، ’ ھُم رجالٌ ونحن رجالٌ ‘ کا نعرۂ مستانہ لگا کر فقہا کی متفقہ رائے کے مقابلے میں اپنی اور اپنے استاذ
[1] المغني :۸/ ۳۱۴، طبع ۱۹۸۴ء [2] الموسوعۃ الفقھیۃ :۲۱/ ۵۹۔ ۶۰ طبع ۲۰۰۳ء