کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 407
اس کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:
’’مرد عورت کی دیت کا فرق احادیث، آثارِ صحابہ (جو کافی تعداد میں ہیں) سے ثابت ہے۔ نیز یہ فرق معقول بھی ہے، یعنی عقل کے مطابق ہے۔ اس لیے کہ عورت میراث اور شہادت میں مرد سے آدھی ہے، تو دیت میں بھی ایسا ہی ہے۔
اس پر سوائے نادر، یعنی ابن عُلَیّہ اور ابوبکر اصم کے جو قیاس کے منکر ہیں، تمام فقہا کا اتفاق ہے۔ ان دو شخصوں کی رائے اس حدیث پر مبنی ہے: ’’مومن کی جان میں سو اونٹ ہیں۔ ‘‘
1۔ اس اقتباس میں سوائے دو افراد کے تمام فقہا کا اتفاق بیان کیا گیا ہے۔
2۔ ان کا استدلال مذکورہ حدیث کے عموم سے ہے، یعنی مومن نفس کا لفظ عام ہے، جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔
1۔ یہ دو شخص کون ہیں؟ ایک ابوبکر الاصم، یہ معتزلی شیخ ہے، اس کا نام عبدالرحمن بن کیسان ہے اور ایک عجیب و غریب تفسیر کا مصنف ہے۔ [1]
دوسرا ابن عُلَیّہ ہے۔ اس نام سے دو شخص معروف ہیں، اسماعیل بن علیہ اور ابراہیم بن علیہ۔ بالترتیب یہ دونوں باپ بیٹے ہیں۔ تاہم باپ (اسماعیل) کا شمار محدثین میں ہوتا ہے، البتہ بیٹے ابراہیم بن عُلیّہ کا اصحابِ تراجم نے اچھے انداز سے ذکر نہیں کیا ہے۔
علاوہ ازیں اسے ابوبکر الاصم کے غلمان (غلام اور شاگرد) میں سے قرار دیا ہے۔ امام شافعی نے اس کے بارے میں یہاں تک کہا ہے:
’ ضَالٌّ یُضِلُّ النَّاسَ ‘[2]
’’خود بھی گمراہ اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے والا ہے۔ ‘‘
ایسے دو شخصوں کی رائے سے، جن کی امت میں کوئی علمی اہمیت نہیں، فقہا کا اتفاق اور امت کا اجماع کس طرح مجروح اور مشکوک ہو سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ علما نے ان دونوں کی رائے کو ’’شاذ ‘‘ قرار دیا ہے اور جس
[1] سیر أعلام النبلاء :۹/ ۴۰۲، لسان المیزان :۳/ ۴۲۷
[2] تاریخ بغداد:۶/ ۲۰۔ ۲۲