کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 404
بننے والے شرعی دلائل قطعی اور یقینی ہیں تو اجماع کا درجہ بھی یہی ہوگا اور اگر وہ دلائل ظنی و استنباطی ہیں تو اجماع بھی اسی درجے کی دلیل ہو گا۔ ‘‘[1]
عزیز موصوف کے اس اقتباس سے ہم پوری طرح متفق ہیں کہ اجتہاد دو قسم کا ہے: ایک نصوصِ شریعت پر مبنی اور دوسرا ظنی و استنباطی۔ دورِ صحابہ کے بعد کے مزعومہ اجماعی مسائل زیادہ تر دوسری قسم کے ہیں، جن سے دلائلِ شرعیہ کی بنیاد پر اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اول الذکر (عہدِ صحابہ کے) اجماعی مسائل میں نہ اجتہاد کا کوئی جواز ہے اور نہ ’’تحقیق ‘‘ کے نام پر ان سے انحراف کی اجازت ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو ایسی انحرافی تاویل نہ صرف گمراہی ہے، بلکہ زیغ و ضلال کی وہ آخری حد ہے، جس کے ڈانڈے کفر و الحاد سے ملتے ہیں، کیوں کہ ان کی بنیاد نصوصِ صریحہ، متواترہ پر ہے، جو یقینی اور قطعی ہیں اور عمار صاحب کے اپنے قول کے مطابق بھی ایسا اجماع قطعی اور یقینی ہے۔ اس کے باوجود تعجب ہے کہ وہ طائفۂ مضلّہ کی حمایت میں ان کی یقینی اور قطعی حیثیت میں دراڑیں پیدا کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں۔
مذکورہ دلائل کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ حدِ رجم اور عقیدۂ نزولِ مسیح کا انکار یا ان کی دور از کار باطل تاویل، کفر و الحاد ہے، جیسا کہ آپ نے اکابر علمائے دیوبند کے ان اقتباسات میں ملاحظہ فرمایا، جو عقیدۂ نزولِ مسیح کے بارے میں ہم نے نقل کیے ہیں۔ ان میں انھوں نے اس عقیدے کے انکار کو واضح الفاظ میں ’’کفر و الحاد ‘‘ قرار دیا ہے اور حدِ رجم پر صحابہ کا اجماع بھی چوں کہ نصوصِ صریحہ پر مبنی ہے، اس لیے اس کا بھی بطورِ حد انکار، کفر و الحاد ہے۔ اسی طرح اس گروہ کا زنا کے چار گواہوں کے ضروری نہ ہونے کا موقف صریح نصوصِ قرآنی و حدیثی کا انکار ہے جو کفر و الحاد ہے۔
[1] الشریعہ:ص: ۱۸۰