کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 403
یعنی نماز تو پڑھے گا، لیکن زکات دینے سے انکار کرے گا۔ اس کی دلیل بیان فرمائی: (فَإِنَّ الزَّکَاۃَ حَقُّ الْمَال، وَاللّٰہِ! لَوْ مَنَعُوْنِيْ عَنَاقًا کَانُوْا یُؤَدُّوْنَھَا إِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلیاللّٰه علیہ وسلم لَقَاتَلْتُ عَلیٰ مَنْعِھَا) ’’اس لیے کہ زکات وہ حق ہے، جو اﷲ نے (صاحبِ مال کے) مال میں (غربا و مساکین کا) رکھا ہے۔ اﷲ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے بکری کا وہ بچہ بھی دینے سے انکار کریں گے، جو وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے تو میں اس کے نہ دینے پر ان سے قتال کروں گا۔ ‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب یہ دلیل آئی تو وہ مطمئن ہوگئے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے موقف سے نہ صرف اتفاق کیا، بلکہ فرمایا: (فَوَ اللّٰہِ! مَا ھُو إِلَّا أَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَ أَبيْ بَکْررضیاللّٰه عنہ فَعَرفْتُ أَنَّہُ الْحَقُّ)[1] ’’اﷲ کی قسم! اﷲ نے ابوبکر کا سینہ کھول دیا (اﷲ نے ان کو صحیح بات سُجھا دی) تو میں بھی سمجھ گیا کہ یہی بات (ابوبکر کا موقف) حق ہے۔ ‘‘ اس کے بعد صحابۂ کرام کا مانعینِ زکات سے قتال پر اجماع ہوگیا۔ علاوہ ازیں حدِّ رجم کے اثبات کے لیے چار عینی گواہوں، حدِ رجم اور نزولِ مسیح پر بھی صحابہ کا اجماع ہے اور یہ اجماع صحابہ کے اجتہاد پر نہیں، بلکہ واضح نصوصِ شریعت پر مبنی ہے۔ صحابہ کے ان اجماعی مسائل سے انکار ایسی صریح گمراہی ہے جو کفر و الحاد تک پہنچا دینے والی ہے۔ فراہی گروہ ان اجماعی مسائل کا انکار کر کے اپنے کفر پر مہرِ تصدیق ثبت کر رہا ہے۔ عمار صاحب کا نمبر (2) پیرا ملاحظہ ہو: ’’قرآن یا سنت کے نصوص، دلائلِ شرعیہ میں بنیادی اور اساسی دلیل کا درجہ رکھتے ہیں، جبکہ اجتہاد اور اجماع ان نصوص پر متفرع ہونے کی وجہ سے ثانوی دلیل کا۔ اس وجہ سے اجماع کی قوت یا ضعف اور قطعی یا ظنی ہونے کا تعین اس شرعی دلیل کی نوعیت کے لحاظ سے ہوگا، جس پر وہ مبنی ہے۔ اگر اجماع کی اساس
[1] صحیح البخاري، رقم الحدیث:۱۴۰۰