کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 402
علمی و فقہی مسائل میں اجماع کی حیثیت اس عنوان کے تحت عمار صاحب نے اجماع کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔ ہم اس بحث پر زیادہ گفتگو ضروری نہیں سمجھتے، کیوں کہ انھوں نے عنوان میں اجماع کو ’’علمی و فقہی ‘‘ مسائل تک محدود رکھا ہے اور ان مسائل میں واقعی اجماع کے دعوے بڑے کیے گئے ہیں اور کیے جاتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان پر اجماع کا دعویٰ بالعموم صحیح نہیں ہے۔ ہمارے نزدیک اصل اور حقیقی اجماع صحابۂ کرام کا اجماع ہے، جس سے انحراف ﴿وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَھَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا﴾(النساء: 115) ’’اور مومنوں کے راستے کے سوا (کسی اور) کی پیروی کرے، ہم اسے اسی طرف پھیر دیں گے، جس طرف وہ پھرے گا اور ہم اسے جہنم میں جھونکیں گے اور وہ بری لوٹنے کی جگہ ہے۔ ‘‘ کے مصداق کفر ہے۔ اس کی مثال منکرینِ زکات سے قتال، شادی شدہ زانی کے لیے حدِ رجم، نزولِ مسیح علیہ السلام اور حدِ رجم کے اثبات کے لیے چار عینی گواہوں کے ضروری ہونے پر اجماع ہے۔ یہ اجماع ایک تو واضح نصوص پر مبنی ہیں اور سوائے پہلے اجماع کے ان میں اجتہاد کا کوئی دخل نہیں اور پہلے اجماع (منکرینِ زکات سے قتال) پر ابوبکر صدیق کی رائے اجتہاد پر مبنی ہے اور ان کا یہ اجتہاد حمل النظیر علی النظیر کی بہترین مثال ہے۔ اس انکارِ زکات کو انھوں نے انکارِ صلات پر قیاس کر کے نصِ حدیث سے اس کا استنباط کیا، جس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پہلے توقف اور ابوبکر سے اختلاف کیا، جس پر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دلیل بھی پیش کی اور اس پر عمل درآمد کے لیے غیر متزلزل عزم و ارادہ کا اظہار بھی کیا: (وَاللّٰہِ! لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَیْنَ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ ) ’’اﷲ کی قسم! میں ان سے ضرور قتال کروں گا، جو نماز اور زکات کے درمیان فرق کرے گا۔ ‘‘