کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 399
سابقاً ذکر کر دیا ہے۔ ‘‘ امام اہلِ سنت رحمہ اللہ دو آیتوں کی تفسیر لکھنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’پہلی آیتِ کریمہ اور اس میں نقل کردہ تفاسیر کی طرح اس دوسری آیتِ کریمہ اور اس کی تفسیر میں نقل کردہ ٹھوس اور مضبوط حوالوں سے یہ بات بالکل عیاں ہوگئی ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کا رفع الی السماء، ان کی حیات اور قیامت سے پہلے ان کا زمین پر نازل ہونا نصوصِ قطعیہ قرآنی آیات سے ثابت ہے، جس کا انکار کافر ملحد اور زندیق کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ باطل پرستوں پر براہینِ قاطعہ اور ادلہ ساطعہ کا کچھ اثر نہیں ہوتا، وہ اپنی اَنا اور ضد پر قائم رہتے ہیں، بھلا شیطان کی ہدایت کس کے بس میں ہے۔ بدلنا ہے تو مے بدلو، طریق مے کشی بدلو وگرنہ ساغر و مینا بدل جانے سے کیا ہوگا ‘‘ (ایضاً، ص: 47۔ 48) نیز امام اہلِ سنت رحمہ اللہ حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام کے موضوع پر دس حدیثیں بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’یہ دس حدیثیں بطورِ نمونہ اور مثال کے باحوالہ عرض کر دی گئی ہیں، ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی بے شمار متواتر اور مرفوع احادیث موجود ہیں اور آثارِ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور موقوفاتِ تابعین اور تبع تابعین اور اقوالِ حضرات سلف و خلف اور اجماعِ امت اس پر مستزاد ہے، مگر جن لوگوں کے دلوں پر کفر و الحاد کے تالے لگے ہوئے ہیں، ان پر حق کی کسی بات کا اثر نہیں ہوتا، وہ اپنے الحاد پر نازاں ہیں ؎ رہے نہ اہلِ خرد تو بے خرد چمکے فروغ نفس ہوا عقل کے زوال کے بعد ‘‘ (ایضاً، ص: 62۔ 63) حضرت امام اہلِ سنت رحمہ اللہ اپنی کتاب کے آخر میں لکھتے ہیں: ’’جملہ اہلِ اسلام اس کو بخوبی جانتے ہیں کہ ختمِ نبوت کے عقیدہ کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الی السماء، ان کی حیات اور پھر نزول الی الارض بھی قطعی اور محکم دلائل سے ثابت ہے، جو کسی تاویل کا محتاج نہیں، لہٰذا جو طبقہ اور گروہ ایسے بنیادی عقیدوں کا انکار یا تاویل کر کے کافروں میں شامل ہونا چاہتا ہے تو بڑے شوق سے ایسا کرے، اسے کون روک سکتا ہے؟