کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 396
احادیث کے تواتر کو تسلیم کیا ہے۔ علاوہ ازیں اس مسئلے کے اثبات میں عربی، فارسی اور اردو میں جو کتابیں شائع ہوئی ہیں، ان کی تفصیلات بھی انھوں نے پیش کی ہیں۔ یہ ایک درجن کے قریب کتابیں ہیں، ان کے مولفین اور تاریخ طبع وغیرہ بھی درج ہیں۔ یہ کتاب بھی بڑے سائز کے 350 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا دوسرا اِڈیشن تحفظِ ختم نبوت پاکستان ملتان نے شائع کیا ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ اس سے بھی کچھ اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جائیں، لیکن یہ موضوع پہلے ہی قدرے طویل ہوگیا ہے، اس لیے کتاب کے تعارف تک ہی بات کو محدود رکھا جا رہا ہے۔ ﴿اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقٰی السَّمْعَ وَھُوَ شَھِیْدٌ﴾(قٓ: 37) ’’بلاشبہہ اس میں اس شخص کے لیے یقیناً نصیحت ہے، جس کا کوئی دل ہو یا کان لگائے، اس حال میں کہ وہ (دل سے) حاضر ہو۔ ‘‘ عمار صاحب کے جدّ امجد کی تصریحات: مضمون کی تکمیل کے بعد مجلہ ’’صفدر ‘‘ گوجرانوالہ کی خصوصی اشاعت ’’فتنۂ غامدی نمبر ‘‘ نظر سے گزرا۔ اس میں ایک فاضل مضمون نگار، مولانا نور محمد تونسوی کا مضمون ہے، جس میں مولانا موصوف نے مسئلۂ نزولِ مسیح پر عمار صاحب کے جدّامجد مولانا سرفراز صفدر گکھڑوی کی تالیف ’ توضیح المرام في نزول المسیح علیہ السلام ‘کے اقتباسات نقل کیے ہیں، جن میں اس عقیدے کے انکار کو کفر و الحاد سے تعبیر کیا گیا ہے، جیسے مولانا کشمیری، مولانا بنوری، مفتی محمد شفیع اور دیگر کئی علما نے بھی اسے کفر و الحاد قرار دیا ہے۔ ہمارے نقل کردہ وہ سارے اقتباسات عربی میں تھے، چناں چہ مجلہ مذکور سے ہم مولانا گکھڑوی مرحوم کی کتاب سے وہ حصے نقل کر رہے ہیں، جو فاضل مضمون نگار نے نقل کیے ہیں۔ یہ گویا مذکورہ عربی اقتباسات کا اردو ترجمہ و مفہوم ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔ مولانا گکھڑوی مرحوم لکھتے ہیں: ’’توحید و رسالت اور قیامت کے عقیدے کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل کے ’علی الجمیع وعلیٰ نبینا الصلوات والتسلیمات‘ آخری پیغمبر تھے۔ ولادت سے لے