کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 393
جھۃ دلالۃ القرآن الحکیم والسنۃ المتواترۃ وإجماع الأمۃ في کل عصر من عصور الإسلام، ولم أر تاکیداً بلیغاً في الأحادیث النبویۃ الکریمۃ بنزولہ المقرون بالإیمان المؤکدۃ في حکم أو عقیدۃ مثلھا۔ ۔ ۔ ‘(ص: 24) پھر مولانا بنوری نے نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کی بعض متفق علیہ احادیث بیان کر کے دیگر احادیث کے بارے میں مفتی محمد شفیع مرحوم کی بابت لکھتے ہیں: کما جمعھا فضیلۃ الشیخ مولانا محمد شفیع الدیوبندي وغیرہ بحیث یقطع کل شک یحوم في الباب، وکل ریبۃ تدخل في الألباب، وکل تجوز في التعبیر من النزول أو ظھور المثیل مجالاً لزیغ أو إنکار أو تحریف أو تأویل الآیۃ الکریمۃ: ﴿وَاِِنَّہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلاَ تَمْتَرُنَّ بِھَاتشبہ الحدیث تماماً في تاکیداتہ البلیغۃ کما لا یخفی۔ واللّٰہ یقول الحق وھو یھدي السبیل ‘ (ص: 24، 25) آگے یہ عنوان قائم کر کے ’ا لإنکار عن عقیدۃ النزول منشأہ الاستغراب ‘ (عقیدہ نزول کے انکار کا منشا، اس کو نہایت انوکھا اور ناممکن باور کرانا ہے) لکھتے ہیں: قد ثبت ثبوتا لا مرد لہ أن عقیدۃ نزول سیدنا المسیح علیه السلام أصبحت حقیقۃ واقعیۃ نطق بھا القرآن الکریم، وشھد بھا الأحادیث المتواترۃ المقطوعۃ وأجمعت علیھا الأمۃ المحمدیۃ من أھل السنۃ الجمعاء، بل أھل الاعتزال والإمامیۃ، فإذن الإنکار جھل فاضح أو إلحاد واضح أو استغراب نشأ من جھۃ الوھم والخیال لم یستند إلی عقل صریح۔ وھذا الاستغراب لیس إلا من تلقاء الغفلۃ عن مشاھدۃ بدائع ملکوت اللّٰہ الحکیم في ھذا الکون والکائنات من الآیات البینات والمعجزۃ الخارقات، فھذہ العجائب المحدثۃ المخترعۃ ألیست مدھشۃ إلی الغایۃ، وھي بین أیدیکم تسمعونھا أو تشاھدونھا۔ ۔ ۔ ‘(آگے اس کی مثالیں بیان کرتے ہیں)۔ (ص: 25) پھر بظاہر آج سے کچھ عرصہ قبل ان انسانی ایجادات کے ناممکن الوقوع ہونے کی مثالیں بیان کر کے لکھتے ہیں: فبجنب ھذہ المخترعات المدھشۃ التي اخترعھا عقل باحث طبیعي، ھل یعد إبداع