کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 391
الغرض استیفاء الأحادیث والروایات في الکتاب، فلا یظن أن الشیخ رحمہ اللّٰہ استوفیٰ الآیات والروایات جمیعاً، کما یظنہ کثیر من أھل العلم۔ وإنما استقصٰی الروایات في رسالۃ ’التصریح ’ کما سبق۔ وإنما الغرض الوحید شرح آیات من التنزیل العزیز ما یتعلق بحیاتہ علیہ السلام۔ ۔ ۔ ) (ص: 12۔ 13) پھر لکھتے ہیں: (ثم إن أصل موضوع کتاب عقیدۃ الإسلام في حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام ھو إثبات نزولہ قرب القیامۃ، تلک العقیدۃ المقطوع بھا في الأمۃ الإسلامیۃ۔ ۔ ۔)(ص: 16) (ومن أکبر من قام لتمحیص ھذہ الحقائق العلمیۃ والکلام علیھا بحثاً وتحقیقاً ھو شیخنا الإمام صاحب کتاب عقیدۃ الإسلام، و أفرد کتابہ لعقیدۃ نزولہ عیسیٰ علیہ السلام وحیاتہ، وأثبت نزولہ من القرآن الحکیم بأدلۃ شافیۃ، ومن الأحادیث النبویۃ بأنھا متواترۃ في نزولہ، ومن إجماع الأمۃ المحمدیۃ من عھد الصحابۃ والتابعین وأئمۃ التفسیر والحدیث والفقہ والتوحید، وأنھا عقیدۃ قطعیۃ متوارثۃ لا تحتمل التأویل، وأنھا من ضروریات الدین، وأن قدرتہ تعالیٰ محیطۃ بالخوارق، وتظھر ھذہ المعجزۃ الخارقۃ قرب القیامۃ التي ھي وقت ظھور الخوارق الإلٰھیۃ) (ص: 17۔ 18) (و بالجملۃ عقیدۃ نزولہ علیہ السلام عقیدۃ اتفق علیھا أھل الحق قاطبۃ من عھد الصحابۃ إلی یومنا ھذا، نطق بھا التنزیل العزیز علی الراجح من تفسیر الآیات الکریمۃ، وتواتر بھا السنۃ النبویۃ في الأحادیث الکریمۃ، وقد صرح بتواترھا أبو جعفر ابن جریر الطبري وأبو الحسین الآبري، وابن عطیۃ المغربي وابن رشد الکبیر والقرطبي وأبو حیان وابن کثیر و ابن حجر وغیرھم من حفاظ الحدیث۔ ۔ ۔ )(ص: 20۔ 21) مولانا بنوری مشہور مصری عالم علامہ زاہد الکوثری کی بابت لکھتے ہیں کہ انھوں نے بھی اس موضوع پر کتاب لکھی ہے، اس کتاب سے بھی متعدد اقتباسات مولانا بنوری نے اپنے مقدمے میں نقل کیے ہیں۔ اس مسئلے میں امت کا جو اجماع ہے، اس ضمن میں اجماعی حیثیت و اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا بنوری نے علامہ