کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 390
اکابر علماے دیوبند کے فتاوے: یہ اکابر ہیں، علامہ انور شاہ کشمیری، مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی وغیرہم۔ یہ وہ اکابر ہیں جن کو موجودہ اکابر دیوبند بھی اپنا اکابر مانتے ہیں اور ان کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں عمار صاحب کے ’’محققین ‘‘ میں سرفہرست تو مرزا غلام احمد قادیانی ہے، جس نے برصغیر پاک و ہند (متحدہ ہندوستان) میں سب سے پہلے عقیدۂ نزولِ مسیح کا اس لیے انکار کیا کہ وہ خود ’’مسیح موعود ‘‘ کے منصب پر براجمان ہو سکے۔ اس کے بعد اس ’’تحقیق ‘‘ کو (فراہی گروہ سمیت) تمام منکرینِ حدیث نے اپنا لیا، لیکن مذکورہ اکابر تو وہ ’’محققین ‘‘ ہیں، جن کی عظمت اور تحقیق میں اہلِ دیوبند میں دو رائیں نہیں۔ علامہ انور شاہ کشمیری مرحوم نے اس مسئلے میں دو کتابیں عربی زبان میں لکھی ہیں۔ ایک کا نام ہے: ’ التصریح بما تواتر في نزول المسیح ‘اس میں انھوں نے سوا سو کے قریب احادث و آثار جمع کیے ہیں، کیا اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود یہ روایات متواتر نہیں، خبرِ واحد ہی ہے؟ ما شاء اﷲ عمار صاحب کی یا ان کے ’’محققین ‘‘ کی کیا خوب تحقیق اور کیا خوب انصاف ہے؟ دوسری کتاب ہے: ’ عقیدۃ الإسلام في حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام ‘اس کتاب کی تعلیقات بھی مولانا کشمیری ہی نے لکھی ہیں، اس کا نام ہے: ’’ تحیۃ الإسلام ‘‘ اس کتاب پر مقدمہ لکھا ہے مولانا کشمیری کے سب سے بڑے علمی وارث مولانا محمد یوسف بنوری مرحوم نے جس کا نام ہے ’ نزل أھل الإسلام في حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام ہم اس مقدمے سے اور اصل کتاب سے کچھ اقتباسات، بغیر اردو ترجمے کے، نقل کرتے ہیں، تاکہ کم از کم اہلِ علم کے سامنے تو مسئلے کی اصل اہمیت و حیثیت واضح اور اس کے انکار کی شناعت و قباحت، بلکہ اس کا کفر و بطلان اجاگر ہوجائے۔ مولانا بنوری مقدمے میں لکھتے ہیں: (ھذا الکتاب:عقیدۃ الإسلام في حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام، وسماہ الشیخ أیضاً: (حیاۃ المسیح بمتن القرآن والحدیث الصحیح) وأفادني رحمہ اللّٰہ بأن موضوع کتابي ھذا إثبات حیاتہ بأدلۃ القرآن الکریم، وإنما جاء ت الأحادیث والآثار تبعاً لإیضاح الآیات، لم یکن