کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 389
نے ثابت کیا ہے، ان کی بنیاد یہی احادیث ہیں، جن کو وہ سنن سے بھی تعبیر کرتے ہیں اور ان مجموعہ ہائے ذخیرہ حدیث کا انھوں نے نام ہی سنن ابی داود، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، سنن ترمذی وغیرہ رکھا ہے۔ ان میں 99 فی صد احادیث اخبارِ آحاد ہیں۔ اگر یہ سارا ذخیرۂ آحاد ناقابلِ اعتبار ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب دین صرف اس صحیفۂ غامدی کے اندر محصور ہے، جس کی وحی کا مہبط غامدی صاحب کا نہاں خانۂ قلب ہے اور اس میں صرف 27 سنتیں ہیں، باقی اللّٰہ اللّٰہ، خیر صلّا۔ 7۔ عمار صاحب فرماتے ہیں: ’’یہ علمی اختلاف ہے، اس پر دلائل کی روشنی میں بحث کرنے کی ضرورت ہے اور اس مسئلے کو ایمانیات کے بجائے احادیث کے حوالے سے بحث و تحقیق کے دائرے میں ہی رکھنا چاہیے۔ ‘‘ اس میں پہلا سوال یہ ہے کہ اگر یہ ایمانیات کا مسئلہ نہیں ہے تو آپ نے اسے پہلے ایمان بالرسالت کا تقاضا کیوں قرار دیا؟ جو عقیدہ اس اہمیت کا حامل ہو کہ وہ ایمان بالرسالت کا تقاضا ہو، وہ ایمانیات میں داخل کیوں نہیں؟ علاوہ ازیں جن احادیث کی صحت چودہ سو سال سے مسلّم چلی آرہی ہے، ان سب میں بھی آپ کے نزدیک بحث و تحقیق کی ضرورت ہے تو یہ علمی اختلاف ہے کہ مسلّماتِ اسلامیہ کا انکار ہے؟ محترم! یہ علمی اختلاف نہیں۔ علمی اختلاف تو وہ ہوتا ہے، جس میں اختلاف کرنے والے کے پاس بھی کچھ دلائل ہوں یا ایک فریق کے مقابلے میں دوسرے فریق کے پاس اس کے دلائل سے بڑھ کر مضبوط دلائل ہوں۔ اس کے لیے تو آپ کے پاس سرے سے دلائل تو کجا ایک ’’دلیل ‘‘ بھی ایسی نہیں جو چودہ سو سالہ اس اجماعی اور متفق علیہ مسئلے کو بے بنیاد ثابت کر سکے۔ آپ نے پہلے مستند اور قابلِ اعتماد روایات کی وجہ سے نزولِ مسیح کی پیش گوئی کو سچا اور ایمان کا تقاضا قرار دیا، لیکن اس کے بعد محض مفروضوں سے اس سے انکار کی گنجایش نکال رہے ہیں۔ یہ علمی اختلاف ہے یا کفر و الحاد ہے؟ اگر آپ کو میرے الفاظ سخت محسوس ہو رہے ہوں تو راقم معذرت کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن پہلے آپ خود اپنے اکابر کے بارے میں سوچ لیں، جنھوں نے عقیدۂ نزولِ مسیح کے انکار کو ’’کفر و الحاد ‘‘ قرار دیا ہے۔