کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 387
بک گیا ہوں جنوں میں کیا کچھ
خدا کرے کچھ نہ سمجھے کوئی
کا آئینہ دار ہے۔
اب پیرا نمبر4 ملاحظہ ہو، اس میں انکارِ حدیث کا سب سے بڑا ہتھکنڈا ’’اخبارِ آحاد ‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے اس مسلّمہ اسلامی عقیدے کو مشکوک ٹھہرانے کی مذموم سعی کی گئی ہے:
’’سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمدِ ثانی کی روایات محققین کے نزدیک اپنی اصل کے لحاظ سے اخبارِ آحاد ہیں اور اس دائرے میں آتی ہیں، جہاں روایات کی تحقیق و تفتیش کے ضمن میں باہم مخالف قرائن کی روشنی میں اشتباہ کا لاحق ہوجانا ممکن ہے۔ بعض صحابہ کے آثار سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ وہ اسے قطعی الثبوت اور متواتر روایات کے طور پر نہیں جانتے تھے۔ اس وجہ سے کوئی صاحبِ علم اگر ان روایات کے استناد سے اختلاف کریں تو یہ ایک علمی نوعیت کا اختلاف ہوگا، جس پر دلائل کی روشنی میں شائستگی سے ہی تنقید کرنی چاہیے اور اس مسئلے کو ایمانیات کے بجائے احادیث کے حوالے سے بحث و تحقیق کے دائرے میں ہی رکھنا چاہیے۔ ‘‘[1]
عزیز موصوف کے اس اقتباس یا پیرے میں چند نکات قابلِ غور ہیں، ہم بالترتیب ان پر روشنی ڈالیں گے۔ وبید اللّٰہ التوفیق۔
1۔ ان روایات کو آحاد قرار دینے والے ’’محققین ‘‘ کون ہیں؟
2۔ کیا اخبارِ آحاد کے ذریعے سے معلوم ہونے والے امور میں واقعی اشتباہ ہوتا ہے اور وہ قطعی نہیں ہوتے؟
3۔ بعض آثارِ صحابہ کے حوالے سے جو کہا گیا ہے کہ وہ اسے قطعی الثبوت اور متواتر روایات کے طور پر نہیں جانتے تھے، یہ صحابہ کون ہیں اور محولہ آثار کہاں درج ہیں؟
4۔ جب آپ کے پہلے پیرے (اقتباس نمبر 1) میں ان روایات کو قابلِ اعتماد قرار دیا گیا تھا، کیا اس وقت یہ اخبارِ آحاد نہیں تھیں اور ’’محققین ‘‘ کے فیصلے کا آپ کو علم نہیں تھا؟ کیا یہ انکشاف آپ پر بعد میں ہوا، کیوں کہ یہ دونوں باتیں باہم متضاد اور ایک دوسرے کے منافی ہیں؟ اگر قابلِ اعتماد ہیں تو ان میں اشتباہ کا امکان تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور اگر ان میں اشتباہ کا
[1] الشریعہ، خصوصی اشاعت، ص: ۱۸۵، جون ۲۰۱۴ء