کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 385
کر کے ان کی اہمیت کو بڑھانا؟ آپ ماننے کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں اور ’’اشکالات ‘‘ کا ہَوّا بھی کھڑا کر رہے ہیں؟ ھذا لعمري في القیاس بدیع۔ انکار کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے عزیز موصوف کی مزید گوہر افشانی یا کاوش!! ’’ان (اشکالات) کی بنیاد پر پیش گوئی کا مطلقاً انکار کر دینا درست نہیں، خاص طور پر جب کہ روایات سے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ بالمعنی نقل ہوئی ہیں اور کسی بھی واقعے سے متعلق تفصیلات کے نقل کرنے میں راویوں کے سوئے فہم کا شکار ہوجانا ذخیرۂ حدیث میں ایک جانی پہچانی چیز ہے۔ ‘‘[1] اہلِ علم اس اقتباس سے بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ اقرار ہے یا انکار؟ علاوہ ازیں احادیث کے بالمعنی نقل ہونے اور نقل کرنے والے راویوں کے سوئے فہم کا شکار ہونے کی دہائی کے بعد کیا سارا ذخیرۂ حدیث، دفترِ بے معنی اور غرق مئے ناب اولیٰ کا مصداق نہیں بن جاتا؟ کیا روایات بالمعنی نقل ہونے کے باوجود محدثین نے ان کو قابلِ اعتماد اور مستند نہیں مانا ہے؟ اور خود آپ نے نمبر (1) اقتباس میں نزولِ مسیح کی روایات کو قابلِ اعتماد اور ان کے ماننے کو ایمان کا تقاضا قرار نہیں دیا ہے؟ صحیحین (بخاری و مسلم) کی متفق علیہ روایات اور دیگر کتابوں کی صحیح احادیث بالمعنی نقل ہوئی ہیں یا باللفظ؟ باللفظ تو شاید چند ہی ہوں، سب بالمعنی ہی ہیں۔ ان بالمعنی روایات میں محدثین نے، اسلاف نے یا ائمہ کرام نے محض اس بنیاد پر احادیث کو مشکوک ٹھہرانے کی کوشش کی ہے؟ مان کر نہ ماننے والی روش کا مظہر، تیسرا اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’3۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ ایک پیش گوئی کے طور پر سیدنا مسیح علیہ السلام کی دوبارہ تشریف آوری پر اعتقاد رکھتے ہوئے یہ نکتہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ اپنی بنیادی نوعیت کے لحاظ سے یہ عقیدے کا مسئلہ نہیں، یعنی کوئی ایسی بات نہیں جسے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمانیات کے ایک جزو کے طور پر بیان کیا ہو۔ ایمانیات کے معروف اور مسلمہ اجزا کے ساتھ موازنے سے اس مسئلے کی یہی نوعیت واضح ہوتی ہے، مثلاً: اﷲ کی صفات، تقدیر، رسالت، ختمِ نبوت، قیامت وغیرہ۔ ان تمام عقائد پر اسلام کے اعتقادی و عملی نظام کی بنیاد ہے اور
[1] الشریعہ، ص: ۱۸۵