کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 384
’’برزخ ‘‘ (پردہ) قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ اقرار اور انکار کا یہ ملا جلا منظر بھی ملاحظہ ہو۔ پہلے، ان کے اقتباس سے انکار کے پہلو: ٭ اس پیش گوئی سے متعلق علمی طور پر بعض اشکالات پیش آتے ہیں۔ (وہ کیا ہیں؟) ٭ مثلاً: قرآنِ مجید کا اس اہم واقعے کی صراحت سے صَرفِ نظر کرنا (کیا احادیث کی صراحت اور احادیث کا قابلِ اعتماد (مستند) ہونا کافی نہیں ہے؟ کیا ہر عقیدے یا حکم کی صراحت قرآن میں ہے؟) ٭ متعلقہ احادیث میں بیان ہونے والے بعض امور کا بظاہر تاریخی واقعات کے مطابق نہ ہونا (کیا ایسے بعض امور کے ظاہری تعارض کو (اگر واقعی ہوں) معقول توجیہ کر کے دور کرنا ضروری ہے یا ان کو اہمیت دے کر مستند احادیث میں بیان کردہ پیش گوئی کو مشکوک ٹھہرانا، صحیح روش ہے؟) عمار صاحب کے اقتباس کے یہ تین ٹکڑے انکار کے مظہر ہیں یا اقرار کے غماز؟ ہر شخص اس کا فیصلہ کر سکتا ہے (بالخصوص بریکٹ میں دی گئی توضیح کے مطابق)۔ اب کچھ کچھ اقرار۔ لیکن انکار کی پرچھائیں کے ساتھ۔ ملاحظہ ہو! ’’تاہم چوں کہ بہ اعتبارِ سند یہ روایات قابلِ اعتماد ہیں اور ان میں وضع کے آثار نہیں پائے جاتے، اس لیے اشکالات کو اشکالات ہی کے درجے میں رکھنا زیادہ قرینِ احتیاط ہے۔ ‘‘ اس عبارت میں اقرار بھی ہے اور انکار بھی۔ جب ایک بات قابلِ اعتماد روایات سے ثابت ہو تو ایک مسلمان کا فرض اس کو ماننا ہے اور منحرفین کی طرف سے اگر کچھ اشکالات پیدا کیے جائیں تو ان کو دور کرنا ہے یا اشکالات کی اہمیت کو اُجاگر کرنا؟ مان کر اشکالات کو اہمیت دینا، یہ ماننے کا کون سا طریقہ ہے؟ پھر کون سی بات ہے جس میں اشکالات پیدا نہیں کیے جا سکتے یا نہیں کیے گئے؟ کیا عقیدۂ آخرت کے بارے میں منکرین کی طرف سے اشکالات پیش نہیں کیے جاتے؟ وجودِ باری تعالیٰ کے بارے میں اشکالات پیدا کرنے والوں کی کمی ہے؟ کیا واقعۂ معراج کی بابت اشکالات پیدا نہیں کیے جاتے۔ وعلیٰ ہذا القیاس، بے شمار مسائل میں اشکالات پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ کیا اشکالات پیدا کرنے والوں نے قرآنِ کریم کی بیان کردہ بہت سی حقیقتوں پر اعتراضات نہیں کیے اور آج بھی نہیں کر رہے ہیں؟ ماننے والوں کی ذمے داری کیا ہے؟ اشکالات کی وضاحت اور اُن کا بے حیثیت ہونا ثابت کرنا یا ان کو اُجاگر