کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 383
توضیحی اضافوں کے ساتھ حسبِ ذیل ہے: ’’1۔ کتبِ حدیث میں متعدد روایات میں قیامت کے قریبی زمانے میں سیدنا مسیح علیہ السلام کے دنیا میں دوبارہ تشریف لانے اور دجال کو قتل کرنے کا ذکر ہوا ہے۔ محدثین کے معیار کے مطابق یہ روایات مستند اور قابلِ اعتماد ہیں۔ اس لیے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بہت سی پیش گوئیوں کی طرح، اس پیش گوئی کے سچا ہونے پر بھی یقین رکھنا آپ پر ایمان کا تقاضا ہے۔ ‘‘[1] دیکھ لیجیے! کتنی صاف اور واضح بات ہے، روایات کے مستند اور قابلِ اعتماد ہونے کا اعتراف ہے اور اس کو ماننا رسالتِ محمدیہ پر ایمان رکھنے کا تقاضا بھی۔ لیکن اس کے بعد گریزپائی یا انحراف یا رجعت قہقریٰ کا منظر بھی ملاحظہ ہو! ’’2۔ اس پیش گوئی سے متعلق علمی طور پر بعض اشکالات یقیناً پیش آتے ہیں، مثلاً: قرآن مجید کا اس اہم واقعے کی صراحت سے صَرفِ نظر کرنا اور متعلقہ احادیث میں بیان ہونے والے بعض امور کا بظاہر تاریخی واقعات کے مطابق نہ ہونا۔ تاہم چوں کہ بہ اعتبارِ سند یہ روایات قابلِ اعتماد ہیں اور ان میں وضع کے آثار نہیں پائے جاتے، اس لیے اشکالات کو اشکالات ہی کے درجے میں رکھنا زیادہ قرینِ احتیاط ہے۔ ان کی بنیاد پر پیش گوئی کا مطلقاً انکار کر دینا درست نہیں۔ خاص طور پر جب کہ روایات سے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ بالمعنی نقل ہوئی ہیں اور کسی بھی واقعے سے متعلق تفصیلات کے نقل کرنے میں راویوں کا سوئے فہم کا شکار ہوجانا ذخیرۂ حدیث میں ایک جانی پہچانی چیز ہے۔ ‘‘ یہ پورا اقتباس ﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ﴾ کا مظہر ہے، یعنی اقرار اور انکار کے آبِ شیریں اور آبِ تلخ یا قرآن کے الفاظ میں ﴿عَذْبٌ فُرَاتٌ﴾ اور﴿مِلْحٌ اُجَاجٌ﴾ کی لہریں ساتھ ساتھ رواں ہیں۔ اﷲ نے تو اپنی قدرتِ کاملہ سے ان دونوں متضاد لہروں کو باہم ملانے سے روکا ہوا ہے اور وہ ﴿بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لاَّ یَبْغِیٰنِ﴾ کا مصداق ہیں، لیکن انسان فن کارانہ مہارت اور چابک دستی کے باوجود اس طرح کرنے پر قادر نہیں ہے۔ عمار صاحب بھی ان دونوں لہروں کو ساتھ ساتھ چلانے کے لیے تو یقیناً ہاتھ پیر مار رہے ہیں، لیکن وہ ان کے درمیان
[1] الشریعہ، خصوصی اشاعت، ص: ۱۸۴، جون ۲۰۱۴ء