کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 382
’ لَوْ کُنْتُ رَاجِمَا أَحَداً بِغَیْرِ بَیِّنَۃٍ لَرَجَمْتُھَا ’[1]
’’اگر میں کسی کو بغیر دلیل کے رجم کرنے والا ہوتا تو میں اس عورت کو ضرور رجم کر دیتا۔ ‘‘
حالاں کہ بچے کی ولادت نے سارے معاملے کو کھول دیا تھا اور جھوٹ سچ واضح ہوگیا تھا، ا س کے باوجود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کی سزا کے لیے جو نصابِ شہادت اﷲ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے، اس کو اس کا متبادل قرار نہیں دیا۔ جب ایسا ہے اور نصوص کی اتنی اہمیت ہے تو اس کے مقابلے میں مشکوک ٹیسٹ کی مشکوک رپورٹ کو حتمی، قطعی اور نصابِ شہادت (چار عینی گواہوں) کے قائم مقام کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے؟ یا لعان کے منطقی اور لازمی نتیجے کو ردّ و بدل کی سان پر کس طرح چڑھایا جا سکتا ہے؟
حضرت مسیح علیہ السلام کی آمدِ ثانی:
اس عنوان کے تحت عمار صاحب نے اُمتِ مسلمہ کے اس متفقہ عقیدے کے بارے میں اپنے موقف کی وضاحت فرمائی ہے، جو صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ آسمان سے نزول ہوگا۔ غامدی گروہ ان متواتر احادیث کا اور نزولِ مسیح کا بھی منکر ہے۔
عمار صاحب اس مسئلے میں بھی سخت ذہنی خلجان کا شکار ہیں۔ اس کو مان کر وہ اہلِ سنت کے موقف کی صحت کا اعتراف بھی کرتے ہیں اور پھر ساتھ ہی اس کی ایسی باطل توجیہات بھی پیش کرتے ہیں، جن سے ان کے اس گروہ کے انکار کا بھی کچھ جواز نکل آئے، جس کی زلفِ گرہ گیر کے وہ اسیر ہوچکے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیے! پہلے ان کا صحیح موقف۔ کاش وہ اپنی گفتگو کو اس حد تک ہی محدود رکھتے، کیوں کہ اس عقیدے کی صحت مان لینے کے بعد پھر ’’اگر، مگر ‘‘ کی کیا تک ہے؟ لیکن بات تو: ﴿وَ اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِھِمْ﴾ (البقرۃ: 93) ’’اور ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں میں اس بچھڑے کی محبت پلا دی گئی۔ ‘‘ والی ہے، جو چھپائے نہیں چھپتی اور سات پردوں کے پیچھے سے بھی وہ اپنی ’’جھلک ‘‘ دکھا رہی ہے۔ لیجیے! پہلے صحیح موقف سنیے اور پھر اسیریِ زلفِ دراز کا قصہ ملاحظہ فرمائیں:
’’سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمدِ ثانی سے متعلق میرا نقطہ نظر، سابقہ تحریر ’’براہین ‘‘ (ص: 790۔ 710) میں بعض
[1] صحیح مسلم، باب اللعان، رقم الحدیث :۱۴۹۶۔ ۱۴۹۷