کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 381
اور شادی شدہ زانی کے لیے رجم ہے۔ یہ سزا چار گواہوں کے بغیر متحقق نہیں ہوسکتی۔ قرائن وشواہد کی بنیاد پر وہ کوئی سی بھی تعزیری سزا کا مستحق تو ہو سکتا ہے، لیکن رجم یا کوڑوں کی سزا کا مستحق نہیں ہوگا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی، جس میں جدید و قدیم دونوں قسم کے علوم کے ماہرین شامل ہیں، اپنے 191 ویں اجلاس (منعقدہ 28۔ 29 مئی 2013ء) میں دیگر اہم معاملات میں سفارشات پیش کیں، وہاں زیرِ بحث ٹیسٹ کے بارے میں بھی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ روزنامہ ’’جنگ ‘‘ لاہور کی خبر ملاحظہ ہو: ’’اسلام آباد۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ زنا بالجبر کے معاملے میں ڈی، این، اے ٹیسٹ بطورِ شہادت قابلِ قبول نہیں، البتہ اسے ضمنی شہادت کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی کا کہنا ہے کہ زنا بالجبر میں ڈی، این، اے ٹیسٹ کارآمد ثابت نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ زنا ایک ایسا جرم ہے کہ جس کے ثبوت کے لیے بہت احتیٰاط ضروری ہے، ڈی، این، اے ٹیسٹ وہاں کافی نہیں ہے۔ ‘‘ اس فیصلے کی ایک واضح دلیل ہمیں ایک حدیث میں ملتی ہے اور اس کا تعلق بھی عہدِ رسالت کے ایک واقعۂ لعان ہی سے ہے۔ ہلال بن اُمیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر تہمت لگائی اور اس شخص کا نام بھی بتلایا، جس کے ساتھ ان کی بیوی نے یہ کام کیا تھا، ان کا نام شریک بن سحماء تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان لعان کروا دیا اور یوں ان کے درمیان جدائی ہوگئی۔ اس کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: ’’اگر ہونے والا بچہ اس اس طرح کا ہوا (اور ہلال بن اُمیہ کے کچھ جسمانی خدوخال بیان فرمائے) تو یہ واقعی (اپنے باپ) ہلال بن اُمیہ کا ہو گا اور اگر اس اس طرح کا ہوا (اور شریک بن سحماء کے کچھ جسمانی خدوخال بیان فرمائے) تو یہ شریک بن سحماء کا ہو گا۔ ‘‘ جب بچہ پیدا ہوا تو وہ شریک بن سحماء کے جسمانی خدوخال کا حامل تھا۔ گویا بچے کی پیدایش، اس امر کا واضح قرینہ اور ضمنی شہادت بن گئی کہ عورت انکارِ جرم میں جھوٹی اور ہلال بن اُمیہ الزام لگانے میں سچے ہیں، لیکن اس نہایت واضح دلیل اور ضمنی شہادت کو چار گواہوں کا متبادل قرار نہیں دیا گیا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: