کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 380
وصول کرنے والا پانچواں شخص ہوگا۔
کیا مذکورہ چاروں مراحل قابلِ اعتماد اور یقینی ہیں؟ کیا ان میں کسی بھی مرحلے پر گڑبڑ کا کوئی امکان نہیں ہے؟ پھر ایسی مشکوک رپورٹ پر کس طرح ایک مسلمان یا اس کے پورے کنبے اور خاندان کی عزت کو داؤ پر لگایا جا سکتا ہے؟ اور کس طرح ایک نامعلوم نسب کو کسی کے ساتھ ملایا جا سکتا ہے؟
قابلِ اعتماد ماننے کی صورت میں لعان کی حیثیت ہی ختم ہوجائے گی:
پھر اس کا ایک اور پہلو قابلِ غور ہے، فرض کر لو ڈی، این، اے ٹیسٹ کی رپورٹ سو فی صد درست ہے تو اس سے جہاں یہ ثابت ہوسکتا ہے کہ نطفہ باپ ہی کا ہے، لہٰذا بچہ صحیح النسب ہے، اس کا نسب باپ کے ساتھ ملایا جائے، لیکن اس رپورٹ سے اس کے برعکس یہ بھی تو ثابت ہوسکتا ہے کہ یہ نطفہ واقعی کسی زانی کا ہے نہ کہ شوہر کا، پھر کیا ہو گا؟
اگر اس ٹیسٹ کو یقین کی حد تک قابلِ اعتماد سمجھا جائے گا تو مسئلہ لعان کی ساری نوعیت ہی تبدیل ہوجائے گی۔ شریعت میں تو لعان کے بعد دونوں میاں بیوی، قذف اور زنا کی سزا سے بچ جاتے ہیں، لیکن اگر ٹیسٹ فیصلہ کن ہو گا تو پھر تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہو جائے گا۔ اس صورت میں خاوند الزامِ زنا میں جھوٹا ثابت ہوا تو وہ سزائے قذف کا مستحق قرار نہیں پائے گا؟ اور اگر عورت انکارِ زنا میں جھوٹی ہوئی تو کیا وہ سنگساری کی مستحق نہیں ہوگی؟
الغرض، بات صرف الحاقِ نسب ہی تک محدود نہیں رہے گی۔ اسلام کا نظامِ لعان ہی اتھل پتھل کا شکار ہوجائے گا، بلکہ سزائے زنا میں بھی اختلال آجائے گا، کیوں کہ ٹیسٹ سے، بشرطیکہ رپورٹ صحیح ہو، یہ تو معلوم ہوجائے گا کہ نو مولود کس کے نطفے سے ہوا ہے؟ اگر نطفہ زانی کا ہے تو کیا رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے یا ہو سکے گا کہ یہ زنا بالرضا تھا یا بالاکراہ؟ زنا بالرضا میں تو زانی اور زانیہ دونوں ہی سزائے رجم کے مستحق ہوتے ہیں، جب کہ اکراہ میں عورت کے لیے معافی کی گنجائش ہے۔
علمائے اسلام کا صحیح فیصلہ:
اس لیے علمائے اسلام کا یہ فیصلہ بالکل درست ہے کہ ڈی، این، اے ٹیسٹ کو ثبوتِ جرم میں ایک قرینہ یا ضمنی شہادت کے طور پر تو استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کی بنیاد پر کسی مجرم کو زنا کی سزا نہیں دی جا سکتی، جو سو کوڑے