کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 379
وہ بیٹا ہی ماں کا وارث اور وہ ماں اس کی وارث ہوگی۔ (وَکَانَتْ حَامِلًا، فَکَانَ ابْنُھَا یُدْعیٰ إِلٰی أُمِّہِ، ثُمَّ جَرَتِ السُّنَّۃُ إِنَّہُ یَرِثُھَا وَتَرِثُ مِنْہُ مَا فَرَضَ اللّٰہُ لَھَا)[1] دوسرے واقعے میں ہے، ایک آدمی نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اپنی بیوی سے لعان کیا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان جدائی کروا دی۔ ’ وَأَلْحَقَ الْوَلَدَ بِأُمِّہٖ [2] ’’اور بچے کا الحاق ماں کے ساتھ کر دیا۔ ‘‘ گویا شریعتِ اسلامیہ میں اس عورت کے انکارِ زنا میں سچے ہونے کے امکان کو تسلیم ہی نہیں کیا، جس سے اس کے خاوند نے لعان کیا ہو۔ جب واقعہ یہ ہے تو ڈی، این، اے کے ذریعے سے تحقیقِ نسب کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اس مسئلے میں شریعت نے اجتہاد کی گنجایش ہی نہیں رکھی ہے، بلکہ قطعی فیصلہ کر دیا ہے کہ لعان والی عورت سے پیدا ہونے والے بچے کا انتساب باپ کی طرف نہیں، بلکہ ماں ہی کی طرف ہو گا، باپ کے ساتھ نسب ملنے ملانے کے امکان ہی کو تسلیم نہیں کیا۔ تیسرا مفروضہ عمار صاحب کے ’’اجتہاد ‘‘ میں یہ کار فرما ہے کہ ڈی، این، اے ٹیسٹ تحقیقِ نسب کا قابلِ اعتماد ذریعہ ہے، لیکن ہمارے ملک میں کرپشن کی جو گھمبیر صورتِ حال ہے، اس کی موجودگی میں کسی طبی رپورٹ کو قابلِ اعتماد قرار دیا جا سکتا ہے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ جو شخص بھی ڈی، این، اے ٹیسٹ کی رپورٹ حاصل کرنا چاہے گا تو چار مراحل سے گزر کر ہی وہ رپورٹ اس کو حاصل ہوگی: 1۔ ایک وہ شخص جو نمونہ حاصل کرے گا۔ 2۔ دوسرا وہ فنی ماہر جو اس کو تحلیل کرے گا۔ 3۔ تیسرا وہ ڈاکٹر جو اس کی کیفیت و نوعیت کا تجزیہ کر کے نتیجہ تحریر کرے گا۔ 4۔ چوتھا وہ جو اسے کمپوز کرے گا۔
[1] صحیح مسلم، باب اللعان، رقم الحدیث :۱۴۹۲ [2] صحیح مسلم، رقم الحدیث :۱۴۹۴