کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 378
اس لیے اﷲ کا کوئی حکم ایسا نہیں ہے، جس پر عمل کسی زمانے میں ناممکن ہو جائے یا پیش آنے والے کسی نئے مسئلے کا حل اس میں نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اجتہاد کی ضرورت نہیں ہے۔ بلاشبہہ اجتہاد ناگزیر ہے اور اس کی اہمیت و ضرورت ہر دور میں مسلّم رہی ہے، آج بھی ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔ آج کل متعدد اسلامی ملکوں میں ایسی فقہی اکیڈمیاں کام کر رہی ہیں، جن کے پیشِ نظر عصرِ حاضر کے جدید مسائل کا حل اور اُن کے انطباق کا طریقہ ہی زیرِ غور ہے اور اس کے لیے وہ اپنی اجتہادی کاوشیں بروئے کار لا رہے ہیں، لیکن ان علمائے اسلام کے نزدیک اجتہاد کا مطلب، حمل النظیر علی النظیر ہے، جس میں نصوصِ صریحہ سے انحراف نہیں ہوتا، بلکہ انہی سے مستنبط اور انہی کے دائرے میں ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک نصوصِ شریعت کو نظر انداز کر کے مسئلے کے حل کے لیے آزادانہ سعی و کوشش ’’اجتہاد ‘‘ نہیں، انحراف ہے۔ راہِ مستقیم نہیں، زیغ و ضلال ہے اور اسلام کی ابدیت و کاملیت کی نفی ہے۔
علاوہ ازیں وہ ’’انفرادی اجتہاد ‘‘ کے بجائے ’’اجتماعی اجتہاد ‘‘ کے قائل ہیں اور یہی وقت کی شدید ضرورت بھی ہے، جس سے وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ ممکن ہے۔ انفرادی اجتہاد سے کسی بھی نئے مسئلے کا حل بالعموم نہیں نکل رہا ہے، بلکہ بعض دفعہ مزید انتشارِ فکر کا باعث بن رہا ہے۔
دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی پر زنا کا جھوٹا الزام لگا سکتا ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ عورت انکارِ زنا میں سچی ہو اور بچہ صحیح النسب ہو، لیکن ہمارے خیال میں ایسا عام طور پر ممکن نہیں ہے۔ کوئی خاوند اپنی بیوی پر ایسا الزام عائد نہیں کرتا۔ شبہہ تو ظاہر کر سکتا ہے اور کئی کرتے ہیں، لیکن سچ مچ الزام عائد کر کے لعان کے لیے تیار ہوجائے، ایسا نہایت مشکل ہے کہ وہ الزام لگانے میں جھوٹا بھی ہو اور لعان بھی کر لے۔ لعان کرنے والا خاوند کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ ہاں عورت انکارِ زنا میں جھوٹی ہو سکتی ہے اور بالعموم وہ جھوٹی ہی ہوتی ہے، لیکن اقرار کی صورت میں ذلت و رسوائی کے علاوہ حدِ رجم کا بھی اس کو خطرہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے لعان کی صورت میں پیدا ہونے والے بچے کا الحاق ماں کے ساتھ ہی کیا ہے، باپ کے ساتھ اس کے نسب کے امکان کو تسلیم ہی نہیں کیا۔
صحیح مسلم میں دو واقعے مذکور ہیں۔ ایک واقعہ ہے کہ جس عورت کے ساتھ اس کے خاوند نے لعان کیا، وہ حاملہ تھی، اس کا وہ بیٹا (پیدا ہونے کے بعد) اپنی ماں کی نسبت ہی سے بلایا جاتا تھا۔ پھر یہی سنت جاری ہوگئی کہ