کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 377
ثابت نہیں مانا جائے گا۔ اس آخری نکتے کے حوالے سے دورِ جدید میں یہ اجتہادی بحث شروع ہوگئی ہے کہ اگر جدید طبی ذرائع کی مدد سے بچے کے نسب کی تحقیق ممکن ہو اور عورت یہ مطالبہ کرے کہ اس پر زنا کا الزام جھوٹا ہے، اس لیے سائنسی ذرائع سے تحقیق کرنے کے بعد اگر ثابت ہوجائے کہ بچہ اس کے شوہر ہی کا ہے تو بچے کے نسب کو اس سے ثابت قرار دینا درست ہوگا؟ ’’میرا طالب علمانہ نقطہ نظر یہ ہے کہ عورت کا یہ مطالبہ درست اور اس کو وزن دینا مقاصدِ شریعت کے عین مطابق ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت نے لعان کے بعد بچے کے نسب کو شوہر سے منقطع کرنے کا جو طریقہ بتایا ہے، اس کا مقصد بدیہی طور پر یہ نہیں ہو سکتا کہ اگر بچے کے نسب کی تحقیق ممکن ہو تو بھی عورت کو اپنے اوپر عائد کیے جانے والے الزام کی صفائی کا موقع نہ دیا جائے اور بچے کو اپنے نسب کے ثبوت کے حق سے محروم رکھا جائے۔ دورِ قدیم میں چوں کہ تحقیقِ نسب کا کوئی قابلِ اعتماد ذریعہ میسر نہیں تھا، اس لیے شریعت نے اتنا ہی حکم دینے پر اکتفا کی جو نصوص میں بیان ہوا ہے۔ تاہم اگر آج ایسا قابلِ اعتماد ذریعہ موجود ہو تو عورت اور بچے، دونوں کے حق کے تحفظ کے لیے اس سے مدد لینا شریعت کے مقصد اور منشا کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے عین مطابق ہوگا۔ ۔ ۔ ۔ (لہٰذا) اگر بیوی الزام کا انکار کرتے ہوئے سائنسی ذرائع کی مدد سے نسب کی تحقیق کا مطالبہ کرے اور طبی تحقیق سے اس کا دعویٰ درست ثابت ہوجائے تو بچے کے نسب کو اس کے باپ سے تسلیم کیا جائے۔ ‘‘[1] ہم عرض کریں گے کہ عزیز موصوف کا یہ ’’اجتہاد ‘‘ ان منحرفین اور سیکولر لابی کی ہم نوائی کے علاوہ تین مفروضوں پر قائم ہے: اول یہ کہ شریعتِ اسلامیہ ابدیت اور کاملیت کے وصف سے محروم ہے اور اس میں بعد میں پیش آنے والے حالات و واقعات کا کوئی حل نصوص کے دائرے میں رہتے ہوئے ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے یہ گروہ آزادانہ اجتہاد کا قائل ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ نصوص سے بالا ہو کر احکامِ اسلام کو حالات کے مطابق ڈھالنا اور ان میں اصلاح و ترمیم کرنا، جب کہ علمائے اسلام کے نزدیک شریعتِ اسلامیہ اس ذاتِ باری تعالیٰ کی نازل کردہ ہے، جو ﴿ مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ﴾ کے علم سے متصف ہے۔
[1] الشریعہ، ص: ۱۸۴