کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 372
کہ یہ صریح بہتان ہے۔ ‘‘ عمار صاحب سے گزارش: بنا بریں بعض صحابہ کی بعض بشری کمزوریوں کی فلسفہ آرائی سے مذکورہ صحابہ و صحابیہ کا پیشہ ور زانی اور زانیہ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا۔ آپ ان کی غنڈہ گردی اور قحبہ گری کو کسی دلیل سے ثابت کریں، اس کے بغیر یہ پاک باز صحابہ صرف ایک مرتبہ غلطی کر لینے کی وجہ سے نہ پیشہ ور بدمعاش اور چکلے چلانے والے ثابت ہوسکتے ہیں اور نہ اس سے آپ کے خود ساختہ نظریۂ رجم کا اثبات ممکن ہے۔ اس سے کم از کم آپ فوری اظہارِ براء ت کر کے اس ضالّ اور مضلّ گروہ کے دامِ ہم رنگِ زمین سے نکل آئیں تو اس سے آپ کا دنیوی وقار بھی بلند ہو گا اور آخرت میں بھی سرخ روئی آپ کا مقدر ہوگی، بصورتِ دیگر ﴿خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ﴾ (الحج: 11) کا مصداق۔ ہماری خواہش، آرزو اور دعا ہے کہ آپ پہلی صورت اختیار کر کے دوسری صورت کے خطرناک انجام سے اپنے آپ کو بچا لیں ؎ من نہ گویم آں مکن ایں کن مصلحت بیں و کارِ آساں کن ایک اور ستم ظریفی: مذکورہ اقتباس میں عمار صاحب نے ایک اور ستم ظریفی یہ کی ہے کہ سورۃ النور کی آیت: ﴿وَلاَ تُکْرِھُوا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآئِ﴾ کا مصداق بھی (نعوذ باﷲ) عہدِ رسالت کے اُن مسلمانوں (صحابہ) کو قرار دے دیا ہے، جنھوں نے ان کے زعمِ فاسد میں زنا کاری کے اڈے کھول رکھے تھے اور جن کو وہ غنڈہ، بدمعاش اور قحبہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس آیت سے وہ مزید یہ باور کرا رہے ہیں کہ یہ مسلمان اپنی مملوکہ لونڈیوں سے بھی زنا کاری کروا کے پیسے کماتے تھے۔ یہ گھناؤنا الزام تو آج تک دشمنانِ صحابہ میں سے بھی کسی نے صحابہ پر نہیں لگایا ہوگا۔ کاش! ع کرتا کوئی اس بندۂ گستاخ کا منہ بند حالاں کہ اس آیت کا تعلق اسلام سے قبل زمانۂ جاہلیت کے اہلِ عرب سے یا اسلام کے بعد رئیس المنافقین