کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 371
عمار صاحب کی نہایت شوخ چشمانہ جسارت: عمار صاحب نے بھی اپنے گروہ کے مفروضات کو سہارا دینے کے لیے (جیسا کہ ان کے مذکورہ اقتباس سے واضح ہے) ایک تو منافقین اور مسلمانوں کو ایک ہی سطح پر رکھا ہے اور دونوں کا کردار یکساں باور کرانے کی مذموم سعی کی ہے، حالاں کہ منافقین کا کردار، ان کے دلوں میں مستور کفر و نفاق کا نتیجہ تھا، ان کی کسی عملی کوتاہی کا مظہر نہیں تھا۔ جب کہ مسلمانوں (صحابہ) سے کردار کی کسی کمزوری کا اظہار ہوا ہے (جس سے کسی کو انکار نہیں ہے) تو وہ ایمانی کمزوری کے نتیجے میں نہیں، بلکہ بشری تقاضوں کی وجہ سے ہوا ہے، کیوں کہ معصومیت کا مقام، سوائے انبیا کے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ صحابۂ کرام کا اصل شرف یہ نہیں ہے کہ ان سے غلطی یا کسی کمزوری کا صدور نہیں ہوسکتا تھا یا نہیں ہوا، بلکہ ان کا اصل شرف یہ ہے کہ وہ سب ایمان کے نہایت اعلیٰ درجے پر فائز تھے، فرقِ مراتب بھی ان کے اندر یقیناً تھا، لیکن فرقِ مراتب کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے کہ وہ مرتکبِ گناہ ہی نہیں ہوئے، بلکہ کسی کبیرہ گناہ کے ارتکاب کو انھوں نے بطورِ پیشہ، بطورِ عادت اپنائے رکھا ہو۔ تربیتی مدارج کے نام پر کسی ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی یا صحابیہ کی بابت بھی ہم یہ تصور نہیں کر سکتے (جیسا کہ عمار صاحب کے اقتباس کا اقتضا ہے) یہ سراسر صحابہ کی توہین اور ان پر بلا جواز طعن و تشنیع ہے، جس کا مرتکب اہلِ علم بجا طور پر عمار صاحب سمیت تمام فکرِ فراہی کے حاملین کو قرار دے رہے ہیں۔ ہم ان صحابہ پر اس قسم کی اتہام بازی پر یہی کہیں گے: ﴿سُبْحٰنَکَ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ﴾ (النور: 16) ’’تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔ ‘‘ اور اس مضمون کے پڑھنے والوں سے بھی ہم عرض کریں گے کہ وہ سیدنا ماعز اور غامدیہ جُہَیْنیہ (صحابیہ) رضی اللہ عنہما کی بابت غامدی گروہ کی ژاژخائی پر قرآن کی یہ آیت پڑھ کر ان کی طہارتِ کردار کا اعلان کریں: ﴿لَوْلآَ اِِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنفُسِھِمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا ھٰذَا اِِفْکٌ مُّبِیْنٌ﴾(النور: 12) ’’کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے نفسوں میں اچھا گمان کیا اور کہا