کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 370
اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم کی کتاب ’’خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت ‘‘ جو مولانا مودودی کی محولہ کتاب کا مفصل ردّ ہے۔
فراہی گروہ کا مفروضہ:
فراہی گروہ (حمید الدین فراہی، مولانا اصلاحی، جاوید احمد غامدی اور عمار خاں سمیت دیگر ہم نوا و متاثرین) اور دیگر منکرینِ حدیث نے مفروضہ گھڑا کہ اسلام میں زنا کی سزا صرف ایک ہی ہے، سو کوڑے۔ اب مشکل یہ پیش آئی کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زنا کے مجرموں کو رجم کی سزا دی ہے، آپ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی دی ہے تو وہ کیا ہے؟ اور کس بنیاد پر دی ہے؟ تو اس کے لیے ایک دوسرا مفروضہ قائم کیا کہ یہ عام زانی کی سزا نہیں ہے، بلکہ پیشہ ور زانیوں، بدمعاشوں اور غنڈوں کے لیے ہے، یعنی یہ سزا زنا کی نہیں، غنڈہ گردی اور بدمعاشی کی ہے۔
اس کی دلیل کیا ہے؟ تو ایک تیسرا مفروضہ قائم کیا یا ’’دلیل ‘‘ تراشی کہ وہ آیتِ محاربہ کے لفظ ﴿اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا﴾(المائدۃ: 33) میں داخل ہے، حالاں کہ محاربہ کی سزا میں ’’رجم ‘‘ کسی طرح بھی نہیں آسکتا۔ یہ قرآنِ کریم کی معنوی تحریف ہے۔ علاوہ ازیں اس گروہ کے بقول رجم کی احادیث ’’آحاد ‘‘ ہیں اور قرآن کی ’’عظمت ‘‘ کا مفہوم اس گروہ کے نزدیک یہ ہے کہ اخبارِ آحاد سے قرآن کے کسی حکم میں اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ رجم کا بطورِ حدِ شرعی انکار کی بنیاد بھی ان لوگوں کے زعمِ باطل میں یہی ہے کہ اس کو حد مان لینے سے قرآن کے حکم ﴿فَاجْلِدُوْا﴾میں اضافہ ہوجاتا ہے، جس کا حق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سمیت کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔
اگر اس گروہ کا یہ ’’زعمِ باطل ‘‘، ’’فاسد خیال ‘‘ اور ’’ذہنی مفروضہ ‘‘ درست ہے تو کیا آیتِ محاربہ سے بطورِ تعزیر ’’رجم ‘‘ کا استخراج اور اضافہ قرآن کی عظمت کے منافی نہیں ہے؟
اگر رسول، قرآن کے عموم کی تخصیص کرے تو وہ قرآن میں اضافہ اور قرآن کی ’’عظمت ‘‘ کے خلاف ہے، حالاں کہ یہ حق اپنے رسول کو خود اﷲ تعالیٰ نے دیا ہے اور آپ قرآن کی سزائے محاربہ میں رجم کا اضافہ کریں تو وہ عین حق و صواب، بلکہ ’’عظیم کارنامہ ‘‘ ہے، جس کا شرف چودہ سو سال کے بعد فراہی گروہ کو حاصل ہوا ہے۔ گویا آپ کا تبیینِ قرآنی کا حق، رسول کے حق سے بھی بڑھ کر ہے اور آپ کا منصبِ شریعت سازی، منصبِ رسالت سے بھی فزوں تر ہے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ، مَا أَعْظَمَ شَأْنَ ھٰذِہِ الطّائفۃ۔ ۔ ۔ !