کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 369
مدعی داغ دار ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسا دلیل کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنے خود ساختہ نظریات کے اثبات کے لیے اپنے مفروضات کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اہلِ سنت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ تمام امت میں خلفائے ثلاثہ بالترتیب افضل ترین ہیں اور چوتھے نمبر پر سیدنا علی ہیں۔ رضی اللہ عنہم۔ لیکن تینوں خلفائے راشدین کو، مسلمانی کا دعویٰ کرنے والا ایک گروہ، منافق، مرتد اور ظالم غاصب سمجھتا اور باور کراتا ہے۔ کیوں؟ کیا اس کے پاس اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ قرآن سے بھی بڑھ کر کوئی دلیل ہے؟ اس سے بڑھ کر تو کیا، سرے سے کوئی دلیل ہی نہیں ہے۔ پھر وہ کیوں اس ظلم اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے؟ صرف اس لیے کہ اس نے اپنی طرف سے ایک مفروضہ گھڑا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کو اپنا ’’وصی ‘‘ بنایا تھا، اس لیے آپ کی وفات کے بعد خلافت کے حق دار سیدنا علی رضی اللہ عنہ تھے، خلفائے ثلاثہ نے یہ حق غصب کر کے نہ صرف ظلم کیا، بلکہ اپنے کفر و نفاق کا بھی اظہار کر دیا۔ نعوذ باللّٰہ من ذلک الھفوات۔ شاید کوئی شخص کہے کہ شیعہ تو مسلمان ہی نہیں، کسی مسلمان کی مثال پیش کریں۔ تو لیجیے! ایک مسلمان مفکر کی مثال سن لیجیے! مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی مرحوم نے جب ’’رسوائے زمانہ ‘‘ کتاب ’’خلافت و ملوکیت ‘‘ لکھی تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ہدفِ طعن بنانے کے لیے کئی مفروضے قائم کیے، مثلاً: انھوں نے ’’طلقا ‘‘ کو بڑے بڑے عہدوں کے منصب پر فائز کر دیا، ان کا سیکرٹری مروان بن حکم جیسا شخص تھا، انھوں نے بیت المال سے بڑی بڑی رقمیں اپنے خاندان کے لوگوں کو بطورِ عطیہ دیں، ان کے مقرر کردہ گورنران بدکرار تھے، وغیرہ وغیرہ۔ ان باتوں کے ان کے پاس کیا ’’دلائل ‘‘ تھے؟ کوئی ایک بھی صحیح روایت نہیں تھی اور نہ ہے، بلکہ تاریخ ہی کی دوسری صحیح روایات سے ان کی تردید ہوتی ہے، لیکن انھوں نے مفروضات و مزعومات قائم کیے تھے، ان کا اثبات ان ہی کذاب راویوں کی بیان کردہ روایات سے ہوسکتا تھا، اس لیے انھوں نے دونوں قسم کی روایات میں سے ’’حسنِ انتخاب ‘‘ کی یہ مثال پیش کی کہ ہر وہ روایت تو قبول کر لی، جس سے ان کی یہ ’’ضرورت ‘‘ پوری ہوجائے کہ سیدنا عثمان کی شخصیت داغ دار ہوجائے اور اس کے برعکس دوسری صحیح روایات کو جو صحابہ کے مجموعی کردار کے عین مطابق تھیں، نظر انداز کر دیں۔ گویا پسلی پھڑک اُٹھی نگاہِ انتخاب کی