کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 368
غبار آلود چہرے پر غازہ پاشی:
عمار صاحب کے مذکورہ اقتباس اور اس گروہ کی دیگر توضیحات کی روشنی میں جن مولانا صاحب نے عمار صاحب پر صحابۂ کرام پر طعن و تشنیع کا الزام عائد کیا ہے، جو ان کے الفاظ میں پہلے گزر چکا ہے، وہ سوفی صد درست ہے اور سورت نساء کی آیات میں جن گھپلوں یا انحراف کی ہم نے نشان دہی کی ہے، آخری گھپلے سے وہ الزام روزِ روشن کی طرح واضح ہو کر ایک حقیقت ثابتہ بن کر سامنے آجاتا ہے، لیکن اﷲ بچائے ایسی ضد اور انانیت سے کہ گمراہی کے واضح ہوجانے کے باوجود بھی اپنے دھڑے کی حمایت میں غلطی کا ارتکاب جاری رکھا جائے، بلکہ اس کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اپنے منہ پر مزید کالک مل لی جائے اور اپنے غبار آلود چہرے کو صاف کرنے کے بجائے اسی پر غازہ پاشی کر کے اس کو مزید بدنما بنا لیا جائے۔ عمار صاحب نے بھی اپنے گمراہ کن نظریے کے عارض و رخسار کو سنوارنے کے لیے ایسی ہی بھونڈی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
’’تاہم مولانا محترم نے یہ سامنے کی بات نظر انداز کر دی ہے کہ عہدِ نبوی کے معاشرے نے اخلاقی تزکیہ و تطہیر کے سارے مراحل ایک ہی جست میں طے نہیں کر لیے تھے اور اس معاشرے میں آپ کے تربیت یافتہ اور بلند کردار صحابہ کے علاوہ منافقین اور تربیت سے محروم کمزور مسلمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی، جو مختلف اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں میں مبتلا تھی اور ان کی اصلاح و تطہیر کا عمل، جتنا بھی ممکن تھا، ایک تدریج ہی کے ساتھ ممکن تھا۔
’’اس طرح کے گروہوں میں نہ صرف پیشہ ورانہ بدکاری اور یاری آشنائی کے تعلقات کی مثالیں پائی جاتی تھیں، بلکہ اپنی مملوکہ لونڈیوں کو زنا پر مجبور کر کے ان کے ذریعے سے کسبِ معاش کا سلسلہ بھی جاری و ساری تھا، چناں چہ قرآن مجید کو اس تناظر میں اس بات کی باقاعدہ وضاحت کرنا پڑی کہ جن لونڈیوں کو اپنی مرضی کے خلاف مجبوراً اس دھندے میں ملوث ہونا پڑتا ہے، اﷲ تعالیٰ ان سے کوئی مواخذہ نہیں کرے گا۔ ‘‘[1]
یہ پورا اقتباس غلطی ہائے مضامین کا آئینہ دار ہے۔ صحابۂ کرام کا مقدس ترین اور پاکباز ترین گروہ بھی کتنا مظلوم ہے کہ جس کی پاکیزگی و طہارتِ کردار کی گواہی خود اﷲ نے دی ہے، اس کے کردار ہی کو ہر ‘‘علم و تحقیق ‘‘ کا
[1] الشریعہ خصوصی اشاعت، ص: ۱۸۸، جون ۲۱۰۴ء