کتاب: فکر فراہی اور اس کے گمراہ کن اثرات - صفحہ 367
لینے والے جوڑوں کی تادیب و تنبیہ کا طریقہ بیان فرمایا ہے۔ ‘‘[1]
یہ ’’داخلی قرائن ‘‘ کیا ہیں، جن کی بنیاد پر استاذ، شاگرد دونوں نے آیات کے صحیح اور متفقہ مفہوم سے انحراف کیا ہے؟
یہ مخترعہ مفہوم اس وقت تک صحیح قرار نہیں پا سکتا، جب تک اس میں استمرار اور دوام کے دلائل یا داخلی قرائن کی وضاحت سامنے نہیں آتی۔ یہ کوئی انتہائی مخصوص قسم کی خردبین ہے، جو علمِ لدنی کی طرح، صرف غامدی گروہ ہی کے پاس ہے۔ اس لیے اس گروہ سے پہلے سب نے اسے عبوری سزا اور ہر زانی کے لیے عام سمجھا اور آج بھی پوری امت، اس شر ذمۂ قلیلہ کے سوا، یہی سمجھ رہی ہے۔
اس خُرد بینی تفسیر کی رو سے حسبِ ذیل گھپلے ان آیات کے مفہوم میں واقع ہوتے ہیں:
٭ یہ عبوری سزا نہیں، مستقل سزا ہے (جب کہ ایسا نہیں ہے)۔
٭ اسے عبوری سزا قرار دینے والی روایات غیر صحیح ہیں (جب کہ پوری اُمت ان کو مانتی ہے)۔
٭ سورت نور کی آیت ’ اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ۔ ۔ ۔ ‘ کا ان آیات سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ زنا کے عام مجرموں کے لیے ہے، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا کنوارے (جب کہ امت اس کو خاص مانتی ہے صرف کنوارے زانیوں کے لیے)۔
٭ پیشہ ور بدکار مرد و عورت یا یاری آشنائی کو مستقل معمول بنانے والوں کو اگر حکومت یا عدالت چاہے تو ایسے غنڈوں، بدمعاشوں کو تعزیر کے طور پر رجم کی سزا دے سکتی ہے (جب کہ امت کے نزدیک عادی زنا کاروں کی، عام زانیوں سے الگ، کسی مستقل سزا یا تعزیری سزا کا قرآن و حدیث میں کوئی وجود ہی نہیں ہے)۔
٭ عہدِ رسالت میں ایسے صحابہ اور صحابیات موجود تھیں، جنھوں نے قحبہ گری کو پیشہ بنایا ہوا تھا یا یاری آشنائی (چھپی بدکاری) ان کا معمول تھا۔ انہی کو اس غنڈہ گردی اور بدمعاشی کی وجہ سے رجم کی سزا دی گئی تھی۔ یہ محض زنا کی سزا نہیں تھی، بلکہ یہ محاربہ ہے۔ (اُمتِ مسلمہ کے نزدیک آیتِ محاریہ کا یہ انطباق ایک طرف قرآن کی معنوی تحریف ہے، دوسرے، صحابۂ کرام کے خلاف ژاژخائی اور عہدِ رسالت کے صالح ترین معاشرے کے خلاف ہذیان گوئی ہے۔ نعوذ باللّٰہ من ذلک ألف ألف مرۃ)
[1] الشریعہ، خصوصی اشاعت، ص: ۱۸۷